بے روزگار صحافی فاقوں پہ مجبور

رپورٹ: ندیم خان

"گزشتہ چار ماہ سے کرایہ ادانہیں کیا مالک مکان روز آکر تنگ کرتا ہے اوپر اللہ ہے اور نیچے ہم ہیں . " یہ الفاظ ہیں صحافی جمیل احمد کے جو گزشتہ 13 سال سے شعبہ صحافت سے وابسطہ تھے لیکن گزشتہ تین سالوں سے میڈیا میں جبری طور نکالے جانے والے صحا فیوں میں وہ بھی شامل ہیں .

جمیل احمد کیمرہ مین سیٹلائٹ انجینئیر نان لائنر ایڈیٹر کی خدمات سر انجام دے چکے ہیں رواں سال کے ماہ جنوری میں جب انہیں نوکری سے نکالا گیاتو وہ اس وقت جنجی چینل خیبر میں بطور کیمرہ مین اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے . جمیل بتاتے ہیں کہ " میری 7 ارکان پہ مشتمل فیملی میرا ایک بیٹا نجی چینل میں کیمرہ مین تھا اسے بھی نکال دیا گیا . اب تو گھر کے مالی حالات کافی خراب ہوچکے ہیں . " وہ بتاتے ہیں کہ روز پریس کلب کے چکر کاٹتا ہوں تاکہ کام مل سکے لیکن ان حالات میں کام ملنا مشکل ہوچکا ہے . عمران خان کے بر سر اقدراد نے کے بعد سے میڈیا مالی بحران کا شکار رہا ہے . بہت سارے اداروں سے صحافیوں کو جبری طور پہ برطرف کیا گیا ہے . اور اخبارات اور چینلز کے اشتہارات میں کمی کے باعث میڈیا ہاوسز نے اپنے ورکرز کو بر طرف کرنا شروع کردیا . پاکستان کا میڈیا کچھ عرصے سے بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ سے سب سے چھوٹے درجے کے ورکنگ جرنلسٹ اپنے روزگار کے حوالے سے پریشان ہیں . تقریبا تین ہزار سے زائد صحافی اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں . پاکستانی میڈیا کو ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت اور حکومتی اشتہارات پر انحصار نے انحطاط پذیر کر دیا ہے . مالی مسائل کے شکار پاکستانی میڈیا میں گزشتہ ایک برس کے دوران بیس ہزار میں سے تقریباﹰ تین ہزار سے زائد صحافی اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں . یوں جہاں پر میڈیا کے پیشے کو خطرات کا سامنا ہے، وہاں پر پاکستانی عوام کے جاننے کا حق اور اظہار رائے کی آزادی بھی شدید متاثر ہو رہی ہے . موجودہ سیاسی منظر نامے میں بڑھتی ہوئی سینسرشپ نے بھی میڈیا کے پیشے کو متاثر کیا ہے . اسی حوالے سے اقبال خٹک، جو ملک میں یورپین ادارے رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کے پاکستان میں نمائندے ہیں، بتایا کہ حکومت کی عدم برداشت کی پالیسی کا ایک نتیجہ سینسر شپ کی شکل میں ہے، جس نے میڈیا کو سرکاری لائن کور نہ کرنے کی پاداش میں سرکار کی طرف سے دیے گئے اشتہارات کی واضح کمی ہے . سرکار کی طرف سے دیے جانے والے میڈیا کو اشتہارات دراصل عوامی ٹیکس کا پیسہ ہوتا ہے جس کی حساب کتاب میں شفافیت ضروری ہے . اقبال خٹک نے بتایا، ''ملک کے سب سے بڑے جنگ گروپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنے کچھ اخبارات اور ٹی وی کے بیورو آفسز بند کر دیے، جن میں صحافیوں اور دیگر اسٹاف سمیت تقریبا چودہ سو لوگوں کی نوکریاں ایک ہی وار میں گئیں . اسی طرح ایکسپریس میڈیا گروپ اور دنیا میڈیا گروپ، جو کہ ملک کے تیسرے اور چوتھے بڑے میڈیا گروپس ہیں، نے دو سو سے زائد صحافیوں کو پچھلے چند ماہ میں نوکری سے نکالا ہے . تقریبا تمام میڈیا گروپس میں کام کرنے والے صحافیوں کی تنخواہوں میں پندرہ سے چالیس فیصد کمی کی گئی ہے، جس سے صحافیوں کے گھروں میں معاشی بحران پیدا ہو گیا . ‘‘ آر ایس ایف کی پاکستان کے بارے میں ایک تازہ رپورٹ ''میڈیا اونرشپ مانیٹر ان پاکستان‘‘ کے مطابق 2017ء میں پاکستان کے پورے میڈیا کی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ 87.7 بلین روپے تھی جبکہ حکومت میڈیا کو اشتہارات مہیا کرنے والا ایک اہم ذریعہ تھی . اس رپورٹ کے مطابق 2013ء سے 2017ء تک حکومت پاکستان نے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کو 15.7 ارب روپے اشتہارات کی مد میں دیے . 2018ء کے الیکشن کے بعد نئی حکومت نے اپنا اشتہاراتی بجٹ تقریبا ستر فیصد کم کر دیا ہے، جس سے میڈیا انڈسٹری شدید مالی مسائل کا شکار ہو گئی ہے . اس رپورٹ کے مطابق 2016ء سے 2018ء کے دوران میڈیا کی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ ملکی معیشت زوال پذیر ہونے کی وجہ سے مسلسل سکڑ رہی ہے . جہاں پر 2016ء میں یہ مجموعی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ 87.7 بلین روپے پر مشتمل تھی وہ 2017-18 میں تقریبا سات فیصد کم ہو گئی ہے اور اندازاﹰ 2019ء میں یہ تقریباﹰ تیس فیصد مزید کم ہو جائے گی اور یوں میڈیا کا معاشی بحران سنگین تر ہوتا جائے گا . پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر شہزادہ زوالفقار نے بتایا کہ اس وقت ملک میں میڈیا کو کافی مشکلات درپیش ہیں جس کی اہم وجہ عمران خان کی حکومت ہے . حکومت کی جانب سے میڈیا کو سینسرشپ کا سامنا ہے اور میڈیا ہاوسز مجبوران اپنے ورکرز کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں . میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ میڈیا کو ہر قسم کی سینسر شپ سے آزاد کرائے . اور میڈیا کو مذید مالی مشکلات میں نہ دکھیلے . . .

متعلقہ خبریں