تحریر: ارباز شاہ
بلوچستان کے تاریخ میں شعبہ صحافت میں کئی بڑے نام گزرے ہیں جنہوں نے صحافت اور آزادیِ اظہار و تحریر کیلئے ہمیشہ اپنے انقلابی سفر کو جاری رکھا۔ قید و بند اور ظلم و ستم کی صحبتیں برداشت کئے۔ مگر اپنے قلم کو زنگ آلود ہونے نہیں دیا۔ ہمارے سامنے بہت بڑے بڑے نام ہیں جنہیں منہ مٹی دب جانے کے باوجود تاریخ ہمیشہ کیلئے اپنے سینے میں قید کرلیتا ہے۔ جن کے خدمات برسوں برس بھی یاد کئے جاتے ہیں۔ جنہوں نے انتہائی کٹھن راستوں پر سفر کرکہ ہمارے لئے راہ ہموار کردی۔
7 جولائی 1907 کو وادی پشین کے علاقے عنایت اللہ کاریز نور محمد خان اچکزئی کے ایک علم دوست اور فہمیدہ گھرانے میں ایک چراغ نمودار ہوئے جسے ہم خان عبدالصمد خان اچکزئی کے نام سے جانتے ہیں۔ تاریخ میں ان کو “خان شہید” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ والد محترم کے انتقال کے بعد ماموں نے ان کی رکھوالی اور پرورش کا ذمہ اٹھایا۔ 1919 کو مقامی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کیلئے داخل کیا۔ خان عبدالصمد خان اچکزئی بچپن ہی سے سیاسی اور تخلیقی ذہنیت کے مالک تھے۔ خان عبدالصمد خان اچکزئی کو کئی بار ان کے سیاسی سرگرمیوں کے جرم میں گرفتار کیا گیا جیسے 1931 کو دو سال بامشکت سزا سنائی گئی تھی۔ خان عبدالصمد خان اچکزئی ایک بہادر اور مستقل مزاج کے مالک تھے۔ رہائی کے فوراً بعد خان عبدالصمد خان اچکزئی لندن میں کڈی کانفرنس میں شرکت کیلئے گئے۔
جنوری 1234 کو کوئٹہ واپسی کے بعد وہ گرفتار ہوئے۔ اور تین سال بامشکت سزا سنائی گئی۔ جنوری 1235 کو ہندوستان کیلئے برطانوی حکومت نے نیا قانون جاری کیا جس کو صوبوں کے محدود سطح پر خود مختاری اور سیاسی آزادی دی گئی۔ اس قانون کا اطلاق بلوچستان میں بھی کیا گیا۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خان عبدالصمد خان اچکزئی نے فوری طور پر کوئٹہ سے “استقلال” نامی اخبار کے اشاعت کیلئے درخواست دائر کی جوکہ کئی ماہ بعد منظور کی گئی اور انہیں استقلال کے نام سے اخبار کے اجراء کی اجازت مل گئی۔
انگریز حکومت نے انہیں انگریزی استعمار کے استعماریت کے خلاف بغاوت اور ان کے انتظامی امور میں مداخلت اور رکاوٹ بننے کے جرم میں ساتھی سمیت پابند سلاسل کرلیا۔ اس عرصے میں آپ کے دوست محمد اسلم خان، محمد حسن اور ستم طلوی نے کراچی جاکر تحریر و تقریر اور صحافت کے ذریعے ان کی تحریک کو زندہ رکھا۔ خان عبدالصمد خان اچکزئی کے گرفتاری پر مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار “زمیندار لاہور” میں تحریریں لکھیں اور ان کے گرفتاری کے واقعے کو کھری تنقید کا نشانہ بنایا۔
سال 1935 میں خن عبدالصمد خان اچکزئی جیل سے رہا ہوگئے اور رہائی کے بعد اپنے پرانے دوست یوسف عزیز مگسی (جوکہ کوئٹہ کے المناک زلزلے میں شہید ہوئے) کی یاد میں الیکٹرک پریس قائم کیا۔ اس پرنٹنگ پریس کو بلوچستان کا پہلا پرنٹنگ پریس جانا جاتا ہے۔ اس دورانیے میں بلوچستان میں کوئی پرنٹنگ پریس ایکٹ لاگو نہیں تھا۔
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنے اخبار “استقلال” کے اجراء کے لیے انتک کوششوں کے بعد لاہور سے ڈیکلریشن حاصل کی اور ساتھ ساتھ بلوچستان میں پریس ایکٹ کے نفاظ کیلئے جدو جہد جاری رکھی۔ بلوچستان میں پریس ایکٹ کے نفاظ کے وقت آپ پابند سلاسل تھے۔ جیسے ہی خان عبدالصمد خان اچکزئی جیل سے رہا ہوئے تو آپ نے اپنی سیاسی، ادبی اور صحافتی سرگرمیاں بڑے زور و شور سے جاری رکھے۔ اسی اثناء میں حوالہ آپ کا “استقلال اخبار” سرفہرست ہے جس میں انگریز استعمار کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی جاتی تھی اس لیے اسے سرکاری اشتہارات ملنا محال تھا۔اخبار کا دارومدار سرکاری اشتہارات کے بجائے مقامی تاجروں کی اشتہارات پر تھا۔ جنوری 1938 کو انہوں نے کوئٹہ سے پشتو اور اردو میں اخبار کی اشاعت شروع کی اور بلوچستان میں صحافت کے بانی ہونے کے بنا پر انہیں “بابائے صحافت” کا خطاب ملا۔ آپ بلوچستان کی پہلی صحافتی تنظیم “جرنلسٹ ایسوسی ایشن” کے صدر بھی منتخب ہوئے۔
سال 1938 میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی بلوچستان جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ آپ بنیادی طور پر ایک سیاسی اور قامی رہبر اور سالار کے حیثیت سے مانے اور جانے جاتے ہیں اگرچہ صحافت جمہوری آزادی کے لیئے بروئے کار لایا مگر پھر بھی ان کی صحافتی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ کہ جہاں بالادست قوتوں کے ڈر سے کوئی لب کشائی کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا وہاں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے بڑے نڈر اور بے باک صحافی کے صفت سے اپنی جغرافیائی اور قومی آزادی کا علم بلند کیا۔
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی اپنے کٹھن زندگی کے آخری نصف دہائی میں دسمبر 1970 کو ہونے والے عام انتخابات میں عوامی رائے کے بنیاد پر بلوچستان صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ یکم مئی 1972 کو بلوچستان صوبائی اسمبلی کے تاریخ کا پہلا تاسیسی اجلاس خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے زیر صدارت منعقد ہوا۔
اپنے زندگی کا نصف دورانیہ انگریزی اور مسلم لیگی جیلوں میں بسر کرنے والے اس عظیم رہنما کو 2 دسمبر 1973 کو کوئٹہ شہر کے وسط میں دو دستی بموں سے شہید کیا گیا۔ جوکہ بلوچستان سمیت اس خطے کے جمہوری اور انسان دوست لوگوں کے دلوں میں اپنے انتک جدوجہد کے بنا پر زندہ اور جاویدان رہینگے۔
کراچی یونیورسٹی کے جرنلزم پروفیسر میں اپنی فیکلٹی ڈین پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ اپنی کتاب “بلوچستان میں ابلاغ عامہ” میں عبدالصمد خان اچکزئی کے شہادت پر افسوس اور ان کے صحافتی خدمات کو خراج تحسین ان الفاظ میں پیش کرتی ہے کہ ؛
“عبدالصمد اچکزئی بلوچستان کی صحافت اور سیاست کی تاریخ کا نہایت روشن اور تابندہ باب ہیں اور اگر انہیں مہلت دی جاتی تو وہ بلوچستان کی صحافت کے لیے اور بہت کچھ کر پاتے۔خان عبدالصمد خان نے ٹوٹ ٹوٹ اور بکھر بکھر کر جیسے اور جتنے عرصے تک مطلق العنان انگریزی اور بدیسی حکمرانوں کی استبدادی رویوں کے باوجود قلم کی آبرو کو زندہ رکھا بلوچستان بلکہ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں اب بھی اس کی نظیر ملنی ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے.”
انٹربینک میں امریکی ڈالر277 روپے 60 پیسے پر آگیا کراچی (قدرت روزنامہ)کاروباری ہفتے کے آخری…
سرکاری محکمے اکتیس دسمبر دوہزارچوبیس تک ترقیاتی بجٹ کی تیاری کی ٹیمز تشکیل دیں گے…
لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ، تعمیراتی کام پر ایک ہفتے کے لیے پابندی…
برسبین (قدرت روزنامہ)پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان شیڈول سیریز کے پہلے ٹی20 میچ میں قومی…
تمام اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں آن لائن کی جارہی ہیں، مریم اورنگزیب لاہور (قدرت روزنامہ)حکومت…
26ویں آئینی ترمیم کے بعد صرف پروسیجر تبدیل ہوا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے…