جب کورونا نے صحافت کو بھی نہ چھوڑا

رپورٹ: مہوش قماس خان

فروری 2020 سے پاکستان میں کرونا وائرس کی آمد کے بعد سے اموات کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے . ان اموات کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں بھی اس نے رنگ، نسل یا شعبے میں امتیاز نہیں رکھا ہے .

ہر شخص کی اپنی کہانی ہے . جان دینے والوں میں ڈاکٹر تو ہیں ہی لیکن پولیس اہلکار، فوجی اور صحافی بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں . کرونا وباء کے سبب دنیا بھر کی طرح پاکستانیوں نے بھی اپنے پیاروں کو کھویا ہے . لاک ڈاؤن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد گھروں تک محدود ہوگئے مگر صحافتی فرائض کی ادائیگی گھروں تک محدود رہ کر نہیں کی جاسکتی تھی . اسی وجہ سے متعداد رپورٹرز، کیمرہ مین اور ڈی ایس این جی اسٹاف کے ممبران کرونا وباء کا شکار ہوتے رہے . پشاور کے مقامی نیوز چینل سے وابستہ سینئر صحافی فخر الدین سید، ملتان کے سینئر صحافی سید آصف علی فرخ، بدین کے سینئر صحافی حنیف زئی اور سرکاری نیوز ایجنسی کے سابق چیف رپورٹر اور اے پی پی ایمپلائز یونین کے سابق صدر ظفر رشید بھٹی سمیت کئی صحافی کرونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گئے ہیں . جبکہ اس مہلک وائرس کا شکار ہونے والے صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی تعداد ہزار تک جاپہنچی ہے . پاکستان میں جیو نیوز سے وابستہ سینئر صحافی اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سینئر نائب صدر ارشد وحید چوہدری اور ہم نیوز سے وابستہ طارق محمود ملک کی کرونا کے سبب اچانک وفات کا صدمہ ابھی تازہ تھا کہ مزید 2 نامور صحافی کرونا وباء کی وجہ سے انتقال کر گئے . سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی چند رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مختلف چینلز کی انتظامیہ کی جانب سے ایسے ملازمین کو بھی دفاتر میں حاضری یقینی بنانے کے لیے مجبور کیا جاتا رہا جن میں پہلے ہی کورونا کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں یا ان کی رپورٹس مثبت آ چکی تھی . کوروناوائرس کی وجہ سے اسلام آباد کے صحافی بھی کافی بڑی تعداد میں متاثر ہوتی جن میں سے کئی کی اموات بھی ہوئی . نیشنل پریس کلب کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں تقریبا 103 کے قریب صحافی کورونا کا شکار ہوئے جن میں سے 8 کی اموات ہوئی . اموات ہونے والوں میں صرف مرد شامل یے جبکہ 103 میں 29 خواتیں صحافی کورونا کا شکار ہوئی . زیادہ تعداد مردوں کی تھی . اسلام آباد میں جب میڈیا چینلز میں کسسزکی تعداد بڑنےلگی تو کچھ چینلز نے اپنے آدھے سٹاف کو گھر بھیج دیا اور آدھے کو آفس رکھا تاکہ کسی نا کسی طریقے سے کام جاری رکھ سکے . کچھ نیوز چینلز سے یہ خبریں سامنے آئی کہ ان کے ایچ آر نے کورونا مثبتصحافیوں کو کام کرنے کے لئے بھی بلایا ہے اور ان کو ڈیوٹی سر انجام دینے کے لئے فیلڈ میں جانے کا بھی حکم دیا . کورونا وائرس کے دوران جب آدھے سٹاف کو گھر بھیج دیا گیا تو اسی دوران ان کو چینل سے نکال بھی دیا گیا کیونکہ کچھ چینل مالکان کو یہ احساس ہوا کہ آدھے سٹاف سے بھی کام مکمل طریقے سے لیا جا سکتا ہے . اس سوچ کی وجہ سے میڈیا میں کافی بڑی حد تک بے روزگاری بھی سامنے آئی یعنی بڑی تعداد میں صحافی بے روزگار ہوئے اور کورونا کہ وجہ سے اپنی نوکری سے ہاتھ دو بیٹھے . صرف یہ ہی نہیں بلکہ وہ صحافی جنھوں نے اپنے دوستوں کو یہ بات بتائی کہ ان کے ادارے میں کوئی کورونا کا شکار یے تو میڈیا مالکان ایسے صحافیوں کو بھی نوکری سے فارغ کر لتے . نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے مطابق ان کے پاس اب تک 89 صحافی رپوٹ ہوئے ہیں جن کو کورونا کے دنوں میں نوکری سے نکال دیا گیا جس میں 80 فیصد مرد شامل ہے . بات کرے میڈیا چینلز کی طرف سے صحافیوں کو حفاظتی انتظامات کی، تو دس میں سے 8 ایسے میڈیا ادارے تھے جنھوں نے برقوت اپنے صحافیوں کو کوئی سہولیات مہیا نا کی جس کی وجہ سے کورونا کے تعداد میں اضافہ ہوا . پاکستان میں چند چینلز کی انتظامیہ اپنے کورونا سے متاثرہ ملازمین کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی تاہم چند میڈیا مالکان ایسے بھی ہیں جو نہ صرف خود اس مسئلے پر بات کرنے سے ہچکچا رہے تھے بلکہ چینل کے سینیئر اور جونیئر ملازمین کو بھی اس نوعیت کی اطلاعات فراہم کرنے سے سختی سے منع کیا گیا تھا . اسلام آباد پریس کلب کے صدر شکیل قرار کے مطابق گذشتہ سال ایک نجی ٹی وی چینل کے دو ملازمین کو اس بات پر فارغ کر دیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے صحافیوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں اپنے ادارے میں کام کرنے والے دو ملازمین کے کورونا میں مبتلا ہونے کی تصدیق کی تھی . کورونا میں جہاں ایک طرف بے روزگاری میں اضافہہو تو دوسری طرف میڈیا میں صحافیوں کے ساتھ اپنے ہی میڈیا مالکان نے زیادتیاں بھی کی . میڈیا چینلز نے جن صحافیوں کو گھر سے کام کرنے بھیجا اور گھر سے کام کرنے کے دوران ہی ان کو کام سے فارغ کیا تب ان مشکل حالات میں ان کی تنخواہ بھی کاٹ دی گئی . جتنا وقت انھوں نے گھر میں گزارا انھیں دنوں کی تنخواہیں ان صحافیوں کو نہ دی . اسی دوران جب ان صحافیوں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی تو کسی نے بھی ان کی مدد نہ کی کیونکہ کچھ چینلز میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر کوئی ان کے بارے میں ادارے میں بات بھی کرے گا تو ان کو بھی اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا . چاہے وہ بیورو چیف ہی کیوں نہ ہو . .

متعلقہ خبریں