16 ہزار سرکاری ملازمین کی بحالی کا کیس ، سپریم کورٹ نے درخواستوں پر تہلکہ خیز فیصلہ سنا دیا

اسلام آباد(قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کے تحت16 ہزار سرکاری ملازمین کو بحال کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے اور حکومتی تجاویز مان لی ہیں . .

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے 16 ہزار سرکاری ملازمین کی برطرفی کے خلاف نظر ثانی کی اپیلیں خارج کر دی ہیں اور  فیصلہ سنا تے ہوئے گریڈ ایک سے 7 تک کے ملازمین کو بحال کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے جبکہ گریڈ 8 سے اوپر کے ملازمین کو بحالی کیلئے محکمانہ امتحان پاس کرنا ہو گا ، مس کنڈکٹ اور کرپشن پر نکالے گئے ملازمین کو بحال نہیں کیا جائے گا . جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں ملازمین کی نظر ثانی کی اپیلیں خارج کرنے سے اختلاف کیا ہے . پانچ رکنی بینچ نے چار ایک کے تناسب سے کیس کا فیصلہ سنایا . سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہناتھا کہ 2010 کا قانون آئین سے متصادم ہے ، 1996 سے 1999 تک برطرف ہونے والوں کو بحال کر دیا  گیاہے ،عدالت نے مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرتے ہوئے ملازمین کی بحالی کا حکم دیا . سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہناتھا کہ ملازمین کی بحالی کا ایکٹ غیر قانونی رہے گا . جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں نظر ثانی اپیلیں منظور کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا ہے جس میں ان کا کہناتھا کہ مضبوط جمہوری نظام میں پالیمان ہی سپریم ہو تاہے ، پارلیمنٹ کو نیچا دکھانا جمہوری نظام کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے ، ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شق 4 آئین سے متصادم ہے، پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمان سپریم ہے ، سیکشن 4 اور 10 آئن سے متصادم ہے ، جس کا جائزہ لینا چاہیے . سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین بحالی کیس کا فیصلہ گزشتہ روز محفوظ کیا تھا جو کہ آج 11 بجے سنانے کا اعلان کیا گیا تھا . سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں سے چار ججز نے اپیلیں مسترد کرنے کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ ایک جج کی جانب سے اختلافی نوٹ لکھا گیا ہے . جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنایا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ لکھا . سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا تھا کہ وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی . گزشتہ روز سپریم کورٹ میں 16 ہزار ملازمین کی برطرفی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ،اٹارنی جنرل کی جانب سے حکومتی تجاویز پر مبنی جواب عدالت عظمیٰ میں جمع کروا دیا گیا تھا . سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نےاپنی تجاویزمیں تسلیم کیاکہ قواعدکومدنظرنہیں رکھاگیا،  ان لوگوں کوجب نکالاگیاان کےحقوق متاثرہوئے،ہمیں تضادات میں نہیں پڑناچاہیئے، ان لوگوں کوجب نکالاگیاان کےحقوق متاثرہوئے، ملازمین کی بھرتی کےوقت بھی قواعدوضوابط کی خلاف ورزی ہوئی،ملازمین سےہمدردی ہےمگرعدالت نےآئین وقانون کودیکھناہے . جسٹس عمر عطا بندیال کا کہناتھا کہ سہولت بھی دیناہوگی تو آئین کےمطابق دیں گے،حکومتی تجاویزنہیں،آئین کےمطابق چلیں گے، آئین وقانون کےمطابق معاملےکاجائزہ لیں گے، فیصلہ وہی ہوگاجوآئین وقانون،عوام کےمفادمیں ہوگا،یقینی بناناہےسرکاری محکموں میں پچھلےدروازےسےتقرریاں نہ ہوں،حکومت کی تجاویز پرفیصلہ نہیں کریں گے . عدالت کا کہناتھا کہ   حکومتی تجاویزکاجائزہ ضرورلیں گےلیکن فیصلہ آئین وقانون کےمطابق ہوگا،ملازمین کےبحالی کاقانون تقرریوں کےطےشدہ اصولوں کےمنافی ہے، معاونت کریں گےتوٹھیک بصورت دیگراپنافیصلہ سنائیں گے، لوگوں کوان کےبنیادی حقوق ملنےچاہئیں . اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی کوئی فائنڈنگ نہیں،بھرتیاں طریقہ کارکیخلاف ہوئیں، ہرشہری کوتقرریوں کےعمل تک رسائی ہونی چاہیئے، ملازمین کےبحالی کےقانون پرپارلیمنٹ میں بحث ہوئی . عدالت نے کہا کہ حکومت نےاپنی تجاویزمیں تسلیم کیاکہ قواعدکومدنظرنہیں رکھاگیا . . .

متعلقہ خبریں