پاکستانی صحافت بے روزگاری کا شکار ، زمہ دار کون

رپورٹ: مہوش قماس خان

ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کی حکمرانی تھی . 2002 میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا کو فروغ دینے کا فیصلہ ہوا .

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی تشکیل پائی . دھڑا دھڑ لائسنس بانٹے گئے . دیکھتے ہی دیکھتے نئے نئے ٹی وی چینلز نمودار ہو گئے . ہزاروں نوکریوں کے مواقع پیدا ہوئے . جاب مارکیٹ کی ضرورت کے پیش نظر، جامعات میں بھی صحافت اور ابلاغیات کے شعبے قائم ہونے لگے . سینکڑوں، ہزاروں نوجوان بچے بچیاں وہاں پر داخلہ لینے اور ڈگریاں سمیٹنے لگے . اس زمانے میں کسی بھی جامعہ کے میڈیا اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینا نہایت پرکشش خیال کیا جاتا تھا . رفتہ رفتہ یہ صورتحال تبدیل ہونے لگی . اب میڈیا انڈسٹری میں وہ دم خم باقی ہے اور نہ ہی جامعات کے شعبہ ابلاغیات میں پہلے جیسی کشش . چند برسوں سے ملکی معیشت تیزی سے رو بہ زوال ہے . اس زبوں حالی کے منفی اثرات میڈیا انڈسٹری پر بھی پڑے ہیں . پھلتی پھولتی انڈسٹری میں زوال کی کیفیت دکھائی دیتی ہے . نوکریوں کی گنجائش سکڑتی جا رہی ہے . ہزاروں صحافی اور کارکن بے روزگار بیٹھے ہیں . جن کی نوکریاں برقرار ہیں، انہیں تنخواہوں میں کٹوتی کا سامنا ہے . انڈسٹری کی حالت زار کے اثرات صحافت اور ابلاغیات کے تعلیمی اداروں پر بھی محسوس ہوتے ہیں . داخلہ لینے کے خواہش مندوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے . یہی وجہ ہے کہ تشہیر کے باوجود، اداروں کے لئے سیٹیں بھرنا مشکل ہو چلا ہے . انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کی جانب سے جاری کردہ ساؤتھ ایشیا پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق صرف مئی 2019 سے اپریل 2021 کے ایک دو کے عرصے میں 2 ہزار عامل صحافی (ورکنگ جرنلسٹ) اور غیر صحافتی عملے (نان جرنلسٹ اسٹاف) کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ہے، فارغ کیے گئے صحافیوں کی بڑی تعداد شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں اور ایسے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہیں جنھیں روزگار کا ذریعہ بنانے کے بارے میں انھوں نے سوچا تک نہیں تھا . میڈیا انڈسٹری میں جن لوگوں کا روزگار برقرار ہے وہ بھی بے یقینی کاشکار ہیں اور روزگار چھن جانے کا خوف ہر وقت ان کے سروں پر سوار رہتا ہے، اسلام اباد میں 12 سال تک صحافت کرنے والے نوجوان صحافی زین قریشی کا شمار بھی ایسے ہی صحافیوں میں ہوتا ہے جنھیں 12 سال کے عرصے میں 3 بار نوکری سے نکالا گیا، 2 بار خود انھوں نے ناموافق اوقات کار اور محدود معاوضے کی وجہ سے اداروں کو چھوڑدیا . زین قریشی کے مطابق پاکستان میں میڈیا کے حالا ت 3 سال میں اور زیادہ خراب ہوچکے ہیں کافی لوگ بے روزگار ہورہے ہیں اپنے صحافی دوستوں کیلیے جو معاشی مشکلات کاشکار ہیں یا روزگار کھوچکے ہیں . زین کہتے ہیں کہ میرا مشورہ ہے کہ کوئی بھی چھوٹا سا کام بہتر انداز میں شروع کریں . نوکری ویسے بھی دوسروں پر اپنے آجر اداروں پر انحصار کرنے کی عادت ڈالتی ہے، اس عادت کو ترک کرنا مشکل ہوتا ہے، خود پر اپنی صلاحیتوں پر انحصار کریں، اپنے کاروبار کا آغاز اس نیت سے کریں کہ آپ کے حالات بہتر ہوں گے ساتھ ہی دو چار اور بے روزگار لوگوں کو روزگار ملے گا . پاکستان میں صحافیوں کا ایک ایسا بہت بڑا طبقہ ہے جو یا تو بہت معمولی سے مشاہرے پر کام کرتے رہے ہیں یا بغیر کسی معاوضے کے . اب سے 15 برس پہلے راولپنڈی کے ایک صحافی محمد بلوچ نے پاکستانی صحافیوں کی پہلی ڈائریکٹری مرتب کی تھی جس میں ملک بھر کے نامہ نگاروں کو ملا کر صحافیوں کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ تھی . انھوں نے بتایا کہ میں نے سنہ 2015 میں اسلام آباد کے انگلش اخبار ’ایکسپریس ٹریبیون‘ میں بطور صحافی کام کرنا شروع کیا تھا . اس وقت میڈیا میں خواتین اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں . ہم نے نئے ٹرینڈز سیٹ کیے . اپنے اخبار کو نئے سے نئے انداز میں چلانے کی کامیاب کوششیں کیں لیکن آج جو ہو رہا ہے ہم مایوس ہو گئے ہیں . ‘ ’اب تو ایسا وقت آ گیا ہے کہ پوری کی پوری ٹیم کو کھڑے کھڑے نکال دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس تنخواہیں ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں . ‘ ’اب تو لگتا ہے کہ صحافت ایک ایسا کام ہے کہ آپ جتنی بھی محنت کریں پھر بھی آخر میں کوئی بھی آپ کا شکریہ ادا نہیں کرتا ہے . لوگ سمجھتے ہیں کہ صحافی بہت با اثر ہوتے ہیں لیکن ہم تو اپنے آپ کو بے یار و مدد گار اور لاچار سمجھتے ہیں . ‘ ’عظمی شیرازی جو ہم نیوز کی صحافی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہماری کوئی بات بھی نہیں کرتا ہے کہ ہم تنخواہ اور نوکری کے بغیر کیسے زندگی گزار رہے ہیں . اس وقت اسلام آباد میں رہنے والے صحافی اپنے بچوں کی فیسیں ادا نہیں کر پا رہے ہیں . بل دینا مشکل ہوگیا ہے . ' پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر افضل بٹ نے کہا کہ 2017 کے بعد سے صحافیوں کا 'معاشی قتل' شدت اختیار کر گیا ہے . اُن کے بقول ان تین سے چار برسوں کے دوران 10 ہزار سے زائد صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے . ان کے یوٹیوب چینلز بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے . افضل بٹ کہتے ہیں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں صحافیوں کو دن دیہاڑے فائرنگ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کوئی ایک بھی ملزم نہیں پکڑا گیا . ان کے بقول سنسر شپ کے نام پر ایک تقریر پر سینئر صحافیوں کو گھر بٹھا دیا گیا . اشتہارات کو ہتھیار کے طور استعمال کرتے ہوئے میڈیا مالکان کو دھمکایا جا رہا ہے . ان کا مزید کہنا تھا کہ سب صحافی خود کو انتہائی غیر محفوظ سمجھتے ہیں کہ کبھی بھی ان کو نوکری سے بھی نکالا جا سکتا ہے، انہیں گھر بٹھایا جاسکتا ہے، ان کے چینل پر پابندیاں لگ سکتی ہیں . لہذا سب صحافی ایک غیر یقینی صورتِ حال سے گزر رہے ہیں اور ایسے میں ذہنی دباؤ ان کے لیے مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے . ان چند سالوں میں اتنی بڑی تعداد میں صرف صحافیوں کی بے روزگاری کافی تشویشناک ہے . لیکن جب اس معاملے میں حکومت سے بات کرے تو وہ سارا ملبہ مالکان پر ڈال دیتے ہیں . وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودہری کا کہنا ہے کہ میڈیا کہ حالات ان کی حکومت میں آنے سے پہلے ہی خراب تھے . انھوں نے بتایا کہ صحافیوں کہ بے روزگاری میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ چینلز کے مالکان صحافیوں کو تنخواہ نہیں دیتے اور ان کو بے روزگار کرتے ہیں . انھوں نے مزید بتایا کہ ہر بار حکومت نے میڈیا مالکان سے اس مسلے کے مطابق بات کی اور وہ آگے بھی کرے گں . دیکھا جائے تو صحافیوں کی بےروزگاری میں آگے بھی اضافہ ہوگا جب تک تمام صحافی ایک پیج پر نہیں ہوگے . . .

متعلقہ خبریں