رپورٹ: ندیم خان
جون کی تپتی دوپہر تھی کوئٹہ کی سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں سیمسٹر کے فائنل کے پیپر چل رہے تھے، طلباء پیپر سے فارغ ہوئیں تو اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کا رخ کیا طلباء اپنے اپنے روٹ کی بس میں سوار ہوتی گئیں . " 16 جون 2013 کی صبح دیگر دنوں کی ہی طرح تھی لیکن اس روز مجھ پہ غیر معمولی قسم کی کیفیت طاری ہو رہی تھی، پیپر سے فارغ ہونے کے بعد گھر واپس جانے کے لئے میں یونیورسٹی کی پارکنگ ایریا سے بس میں سوار ہوئی میں نے بس میں بیٹھنے کے لئے بس کی اگلی سیٹ کا انتخاب کیا کچھ ہی دیر بعد قریب 2.28 کا وقت ھا کہ بس کے پچھل حصے میں ایک زور دار دھماکہ ہوا اور میں نے فوران سے بس سے باہر چھلانگ لگائی ." صدف اعوان کے جسم کا 35 فیصد حصہ یونیورسٹی بم حملے میں متاثر، حملے کے فوران بعد انہیں قریبی ہسپتال بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا . دھماکے میں زخمی ہونے کے باعث انکا آٹھواں سیمسٹر تارخیر کا شکار ہوا، 3 ماہ بعد وہ صحت یاب ہوکر دوبارہ یونیورسٹی گئیں اور یوں انہوں نے 2014 میں منیجمنٹ سائنسز میں میں بی ایس کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد ازاں ایم ایس کی ڈگری حاصل کی . دھماکے کا اصل ہدف شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی طالبات تھیں جو کہ اس بم حملے میں محفوظ رہیں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے دھماکے سے چند روز قبل روٹ پر چلنے والی بس میں تبدیلی کی گئی اور یوں جس بس میں صدف سوار تھی وہ بم حملے کا نشانہ بنی . صدف کہتی ہیں "یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے روٹ پر چلنے والی بسوں کو متعدد بار تبدیل کیا گیا تھا اور یہ معمولی سی بات تھی . میں اگر اس روز بس کے اگلے حصے میں سوار نہ ہوتی تو شاہد بچ نہ پاتی . " بم دھماکہ خاتون خودکش حملہ آور نے کیا جسکے نتیجے میں میں 14 طالبات ہلاک ہوئیں زخمیوں کو قریبی ہسپتال بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا جا رہا عین اسی وقت مسلح حملہ آوروں نے ( ڈبل اٹیک ) کرتے ہوئے ہسپتال میں داخل ہوئے اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا ہوئی جسکے نتیجے میں مذید 11 افراد جانبحق ہوئے کل اس روز جانبحق ہونے والوں کی تعداد 25 تک پہنچ گئی جانبحق افراد کی فہرست میں اس وقت کے کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر بھی شامل تھے . بس پہ بم حملہ خاتون خودکش حملہ آور نے کیا تاہم واقعہ کی ذمہ داری سنی مسلح تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی . اس واقعے سے ایک سال قبل جون 2012 میں ہزارہ قبیلے کے طلباء کو لے جانی والی آئی ٹی یونیورسٹی کی بس کو کوئٹہ کے سمنگلی روڈ پہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکے سے اڑایا گیا جسکے نتیجے میں 5 طلباء جانبحق جبکہ 55 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں بچوں سمیت راہگیر بھی شام تھے . کوئٹہ شہر پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے رقبہ کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کا دارلحکومت ہے جبکہ اس صوبے کی آبادی ملک کے دیگر صوبوں سے کافی کم ہے . بلوچستان میں قدرتی وسائل وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جبکہ یہ ملک کا پسماندہ ترین صوبہ جو کہ عرصہ دراز سے شورش کا شکار ہے . صوبے کے مغرب ایران شمال مغرب میں افغانستان جبکہ جنوب میں بہر عرب واقع ہے . حالیہ مردم شماری کے مطابق کوئٹہ شہر کی آبادی 2,269,473 جبکہ ہزارہ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 5 لاکھ کے قریب ہے جن میں سے اکثریت کوئٹہ میں آباد ہے . شیعہ کانفرنس کے اعداد شمار کے مطابق سنہ 1999 سے لیکر اب تک مجموعی طور پر کل 26830 ہزارہ قبیلے کے افراد مارے گئے ہیں . جبکہ نیشنل کمیشن آفی ہیومن رائٹس کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق " گزشتہ 14 سالوں میں ہزارہ قبیلہ کے 2000 سے ذائد افراد مارے جا چکے ہیں" جان کو لاحق خطرے کے باعث ہزاہ طلباء کو اعلی تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اکثر طلبہ انٹر کے بعد تعلیم کو ترک کر دیتے ہیں . مری آباد میں جنرل موسی کے نام سے منسوب ایک پوسٹ گریجویٹ کالج کی سہولت تو موجود ہے لیکن کالج میں صرف پانچ سبجیکٹ میں بی ایس تک تعلیم دی جاتی ہے . نجی کالج میں انٹر تک تعلیم حاصل ہر پاتے ہیں جو کہ مری آباد کے ساتھ ہی میں واقعہ ہے . ہزارہ قبیلے کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے جو کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاون اور مری آباد میں رہتے ہیں مسلح حملوں کےباعث اب یہ قبیلہ اپنے علاقوں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں شہر میں پہلے کی نسبت ہزارہ افراد کم ہی نظر آتے ہیں کسی بھی ںا خوشگوار واقعے کے پیش نظر ان علاقوں کو نیم فوجی دستوں نے چاروں اطراف گھیرے میں لے رکھا جہاں ایک قسم کی بلاکیٹ کی صورتحال . مخصوص قدرتی فیشل فیچر کے باعث ہزارہ قبیلہ کے افراد کو ٹارگٹ کرنا آسان ہے . میں کوئٹہ کے طوغی روڈ سے مری آباد کی طرف روانہ ہوا نیم فوجی دستے کی چیک پوائنٹ کو کراس کرتے ہوئے مری آباد پہنچا یہ چیک پوائنٹ کوئٹہ کو مری آباد سے الگ کرتی ہے . مری آباد کے شاہراہ گلستان سڑک کے ساتھ چائے کے ڈھابے پہ ہم ملییں لکڑی کے ایک بینچ پہ بیٹھے اور سبز چائے کا آرڑد دیا . اس نے ٹی شرٹ اور گلے میں چین پہن رکھی تھی . ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والےقیصر علی نے حال ہی میں انٹر کا امتحان دیا اور اب وہ ریزلٹ کے انتظار میں تھا . قیصر علی کہتے ہیں کہ " میں اہنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں وہ مجھے کبھی بھی کھونا نہیں چاہتے مجھے میری والدہ نے سختی سے منع کیا ہے کہ مری آباد کے انٹری پوائنٹ پہ قائم چیک پوائنٹ سے باھر نہیں نکلنا لیکن میں اکثر ان سے جھوٹ بول کر باھر چلا جاتا کیونکہ شہر میں اکثر کام پڑ جاتا ہے . " قیصر اعلی تعلیم کے خواہش مند ہیں وہ اس کوشش میں ہے کہ کسی طریقے سے سکالرشپ لیکر ملک کے دوسرے صوبے میں تعلیم حاصل کرنے جائیں . قیصر کہتے ہیں کہ" ان کے والدین نے مجھے بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے سختی سے منع کر رکھا ہے اگر مجھے سکالر شپ نہیں ملتی تو میں فارن جاوں گا جہاں کام اور پڑھائی ساتھ میں کونگا میرا ایک کزن بھی باھر کے ملک میں ہے . " سنہ 2005 میں قیصر کے والد اپنے گھر کے افراد کو چھوڑ کر رزق کے حصول کے لئے دبئی چلے گئے اس کے کچھ عرصہ بعد وہ سعودیہ عرب کے شہر ریاض چلیں گئے وہ وہاں بطور شیف کا کرتے ہیں . انہوں نے بتایا کہ مسلح حملوں اور مالی مشکلات کے باعث انہیں ملک چھوڑنا پڑا حال ہی میں کرونا وباء کے باعث وہ واپس کوئٹہ آئے ہیں جبکہ وہ نہیں چاہتے کہ انکا بچا بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھے کیونکہ ان کے بیٹے کی جان پڑھائی سے ذیادہ اہم ہے . بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ، صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے جامعہ کے اکیڈمک اسٹاف ایسوسیشن کے صدر پروفیسر کلیم اللہ بڑیچ کے کے مطابق جامعہ میں کل 8 ہزار سے ذائد طلبہ زیر تعلیم ہیں لیکن ہزارہ مرد طلبہ کی کل تعداد پورے جامعہ میں 10 تک بھی نہیں جبکہ ہزارہ خواتین طلبہ کی تعداد اچھی ہے جسکی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خواتین برقعے یا چادر میں ہونے کی وجہ سے شناخت کرنا مشکل ہے اس لئے وہ خود کو محفوظ سمجھتی ہیں . کلیم اللہ بڑیچ کہتے ہیں کہ "جامعہ میں کل 550 سے ذائد اساتذہ پڑھاتے ہیں جن میں سے ہزارہ اساتذہ کی تعداد صرد دو ہے جبکہ حال ہی میں ایک استاد نے اپنا ٹرانسفر موسی کالج کروایا ہے . اگر دو دہائی قبل کی بات کی جائے تو جامعہ میں ہزارہ افراد کی اچھی تعداد ہوا کرتی تھی لیکن دیشتگردی کی لہر نے ان کی تعلیم بہت ذیادہ متاثر کیا ہے . " تجزیہ نگار شہزادہ زوالفقار شیعہ سنی فسادات کو ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ " شیعہ مسلک کی ایران جبکہ سنی مسلک کی حمایت سعودی عرب کرتا، اکثر و بیشتر پارا چنار تعلق رکھنے والے افراد جو شیعہ مسلح تنظیموں سے وابسطہ تھے ان کی جانب سے نفرت آمیز تقاریر کرنے والے سنی علماء کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا، لیکن ٹارگٹ کلنگ کا شکار سنی علماء کی تعداد کافی کم ہے جبکہ شیعہ مسلک کے افراد کی بڑی تعداد متاثر ہوئی اور اس تمام تر جنگ میں نوجوان ایندھن کی طرح استعمال ہوئے . " شہزادہ مذید بتاتے ہیں کہ ہزارہ قبیلے کو شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے، ہزارہ قبیلے کے افراد مخصوص فیچر کی وجہ سے با آسانی پہچانے جاتے ہیں اور وہ شہر میں سفر اپنی مخصوص گاڑیوں میں کرتے ہیں جس میں صرف ہزارہ قبیلے کے لوگ شامل ہوتے ہیں جسکی وجہ سے ایک ساتھ پوری گاڑی کو نشانہ بنایا جانے لگا . تاہم جب تک خطے کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے یہ فسادات ختم نہیں ہونگے . ستمبر 2011 میں بلوچستان کے علاقے مستونگ میں شیعہ ہزارہ کو بسوں سے اتار کر شناخت کرنے کے بعد گولیاں مار کر قتل کیا گیا اس وقعے میں مرنے والوں کی تعداد 21 تھی . متحدہ مجلس عمل ( شیعہ سیاسی جماعت ) کے جنرل سیکرٹری ارباب لیاقت ہزارہ قبیلے کو دی جانے والی سیکیورٹی کو کم سمجھتے ہیں انہوں نے بتایا کہ "صوبائی حکومت نے حال ہی میں ہزارہ قبیلے کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا میرا نہیں خیال کہ یہ کمیشن کچھ کر پائے گا، صوبے میں دیشتگردی کے واقعات ہونا قانون نافظ کرنے والے اداروں کی ناکامی ہے، انہیں اپنا کام بہتر طریقے سے کرنا ہوگا . حالات کی خرابی کی وجہ سے ہزارہ طلبہ کی نہ صرف پڑھائی جبکہ سوشل لائف متاثر ہو رہی ہے اداروں کو چاہئے کہ وہ . " بلوچستان حکومت نے ہزار قبیلے کیو سیکیورٹی کے لئے وزیر داخلہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں ہزارہ ڈیموکریٹ پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی خالق ہزارہ شامل ہیں شامل ہیں . ہزارہ ڈیموکریٹ پارٹی نے 2018 کے انتخابات میں مری آباد اور ہزارہ ٹاون سے صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پہ کامیابی حاصل کی اور وہ صوبے میں اس وقت حکمران جماعت کی اتحادی ہے . ہزارہ ڈیموکریث پارٹی کے جنرل سیکرٹری احمد کوزاد کہتے ہیں کہ" آج سے 20 سال قبل بلوچستان یونیورسٹی میں ہزارہ طلباء بڑی تعداد میں پڑھنے کے لئے جایا کرتے تھے لیکن اب نہیں جا پا رہے . وہ ہزارہ طلبہ جنکی مالی حالت اچھی ہے ملک کے دوسرے صوبے میں پڑھنے کو ترجیع دے رہے ہیں . ہماری نئی نسل صرف ہزارہ ٹاون اور مری آباد تک محدود ہو کر رہ گئی تھی حالات میں کچھ بہتری کی وجہ سے کچھ عرصے سے ہزارہ قبیلے کے افراد سیر و تفریع کی غرض سے مری آباد اور ہزارہ ٹاون سے باہر نکلنے لگیں ہیں . ہم سب کو بھائی چارے اور امن کو فروغ دینا چاہئے جس سے حالات میں مذید بہتری آئی گی . ریاست کہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر انسان کی جان کی حفاظت کرے . " ہزارہ قبیلے کے مسلح حملوں اور ایک جیل نما علاقے میں رہنے کی وجہ سے ڈیپرائیو سائکولوجی احساس کمتری اور پوسٹ ٹراماٹک سٹریس کا شکار ہیں سائکالوجسٹ فوزیہ بنگش نے کہتی ہیں کہ "ہزارہ قبیلے کے افراد میں نفسیاتی مسائل کی وجہ سے ڈومیسٹک وائلنس کافی ذیادہ ہے جان کو لاحق خطرہ اور لیک آف موٹیویشں کج وجہ سے اسکا اثر نفسیات پر ہوتا جسکی وجہ سے انکی تعلیم پہ بھی کافی منفی اثرات مرت ہو رہے ہیں . " فوزیہ مشورہ دیتی ہیں کہ ہزارہ قبیلے میں آگاہی مہم چلائی اور ان کے لئے سائیالوجسٹ کی خدمات مہیا کی جائیں اور نوجوانوں میں سائکالوجسٹ کا نیٹ ورک ہونا چاہئے جو بوقت ضرورت درپیش نفسیاتی مسائل کا حل ڈھونڈنے میں مدد فراہم کر سکیں . ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی سماجی سماجی کارکن جلیہ حیدر کہتی ہیں کہ فرقہ وارانہ جنگ کو سہارا دینے کے لئے مذہب کا نام دیا گیا جسکی وجہ ریاست اور قانون نافظ کرنے والے اداروں نے حالات پہ قابو کیوں نہیں پایا جسکی وجہ سے حالات خراب تر ہوتے گئے . ہزارہ قبیلے کے افراد سے لوگ دوری اختیار کرتے ہیں کہ کہیں وہ بھی مارے نہ جائیں . جلیہ نے مذید بتایا کہ ہزارہ قبیلے کے افراد کو دیگر برادریوں کے افراد کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے ساتھ سوشل گیدرنگ اختیار کریں . اور ریاست قانون کی بالادستی کو قائم کرتے ہوئے امن قائم کرے تاکہ ہر کسی کی جان کی حفاظت ممکن ہو . صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے بتایا کہ " ہم نے پہلے دن ہزارہ ٹاون اور مری آباد کو ہم مکمل سیکیورٹی دے رکھی جس طرح قبیلے کے افراد نے کہا نے سیکیورٹی فراہم کی ہے دہشتگردی کے خلاف مکمل تو نہیں لیکن کافی حد تک کامیابی حاصل کر چکے ہیں دیکھا جا سکتا ہے کہ دہشتگردی کے واقعات میں کافی حد تک کمی آئی ہے . " ضیاء لانگو کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا پتا چلایا گیا ہے اب دہشتگرد کوئٹہ میں کاروائیاں نہیں کر پا رہے جسکی وجہ سے وہ دور دراز مچھ جیسے علاقے میں کاروائیاں کرنے لگیں ہیں لیکن مچھ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کافی کاروائی میں کامیابی ملی ہے چونکہ انٹیلیجنس بنیادوں پر وہ ذیادہ معلومات فراہم نہیں کرسکتے . رواں برس جنوری کے مہینے میں بلوچستان کے علاقے مچھ میں 11 کان کنوں زبح کیا گیا جن کا تعلق ہزارہ قبیلے سے تھا جسکی زمہ داری دولت اسلامیہ کے جنگجوں نے قبول کی . افغانستان کے دارلحکومت کابل کے علاقے دشت برچی ہزارہ قبیلے کے افراد آباد ہیں . رواں برس جون مئی کے مہینے میں لڑکیوں کے سیدالشہدا اسکول کے باھر بم دھماکے کے نتیجے میں 85 افراد مارے گئے جن میں سے اکثر کی عمریں 11 سال سے 17 کے درمیان تھیں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت لڑکیوں کی تھی . سید الشہدا سکول بم حملے کی ذمہداری کی بھی مسلح تنظیم نے قبول نہیں کی تاہن دولت اسلامیہ کے جنگجوں پاکستان اور افغانستان میں ہزارہ شیعہ پہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے آرہے ہیں . . .