مجیب اللہ کوئٹہ
کوئٹہ ان دنوں پانی کے بحران کے مسئلے سے دوچار ہے خدشہ ہے کہ آئندہ 2 سے 3 سال بعد اہلیان کوئٹہ پانی باپید ہونے کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے محمد ابراہیم کو گزشتہ 12سالوں سے واٹر اینڈ سینی ٹیشن اتھارٹی (واسا) کی پائپ لائنوں سے پانی نہیں ملاابراہیم کوئٹہ میں سریاب روڈ کے قریب قائم ایک گنجان آباد محلے کلی کریم آباد میں رہتا ہے اورضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے مہینے میں دو سے تین بار پانی کا ٹینکر خریدنے پر مجبور ہے . محمد ابراہیم کے مطابق ماضی میں پانی کا ٹینکروالے صرف ایک فون کرنے پر گھر پر پانی پہنچادیاکرتے تھے مگر اب انہیں دو سے تین دن پہلے بتانا پڑتا ہے اور اس کے بعد پانی پہنچادیا جاتا ہے .عام ایام میں فی ٹینکر 15سو روپے میں جبکہ عیدین کے موقع پر یہی ٹینکر پانی 2ہزار سے 22سو روپے تک کا پہنچ جاتا ہے . محمد ابراہیم وہ واحد شخص نہیں جنہیں پانی کے حصول کے لئے مشکلات در پیش ہیں صوبائی دارالحکومت کے تقریباً تمام علاقوں میں شہریوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور وہ ٹینکر کے زریعے پانی خریدنے پر مجبور ہیں . تاہم شہر کے صرف کچھ علاقوں کے مکینوں کو محکمہ واسا کے زریعے پانی کی فراہمی کی جا تی ہے . پانی کی کمی کا مسئلہ لئے محکمہ واسا کو آر ٹی آئی ( رائیٹ تو انفارمیشن ) ایکٹ کے زریعے سوالات بھیجے گئے مگر محکمے کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تاہم محکمے کے ہی آفیسر جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کوئٹہ شہر کو پانی کی یومیہ طلب 61 ملین گیلن ہے جبکہ واسا صرف 34.8 ملین گیلن فراہم کر سکتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ شہر کی آباری میں اضافے اور پانی کی زیر زمین سطح نیچے جانے کے بعد محکمہ واسا کے لگائے گئے بور خشک ہونا ہے . رکن صوبائی اسمبلی ملک نصیر شاہوانی کے مطابق کوئٹہ شہر میں پانی کی قلت کے ذمہ دار 70 برسوں سے صوبے پر حکمرانی کرنے والے ہیں . حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ہم اپنی آئندہ نسلوں کا پانی بھی استعمال کرچکے ہیں . ماضی میں شہر کی آبادی کم تھی . ان ادوار میں بارشیں معمول سے زیادہ ہواکرتی تھیں شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتوں نے اس جانب توجہ دینے کی زحمت محسوس نہیں کی . کوئٹہ میں350کاریز تھیں مگر آج ان کے آثار نہیں ملتے . ان کاریزوں سے پہاڑوں کے دامن میں موجود پانی کا رخ شہری آبادی کی جانب موڑاگیا اوراس پانی کو استعمال میں لاتے ہوئے نہ صرف باغات کو سیراب کیاجاتا رہا بلکہ لوگ یہاں سے پینے کیلئے پانی لے کر جاتے تھے . انہی کاریزوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح برقرار رہتی تھی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے جو پانی30 فٹ گہرائی سے نکالاجاتاتھا آج 1200 فٹ سے نکالاجارہاہے کیونکہ زمین کی تہہ خشک ہوچکی ہے . ملک نصیر شاہوانی کے مطابق سال 2000ء میں آنے والی طویل خشک سالی کے دوران500سے زائد ٹیوب ویلز اور 70 لاکھ سے زائد پھل دار درخت خشک ہوئے جس سے زمینداروں کو66 ارب روپے کا نقصان ہوا . اندرون بلوچستان سے 45 فیصد لوگ نقل مکانی کرکے سندھ اورپنجاب کے علاقوں میں منتقل ہوئے . خشک سالی کے باعث مال مویشی ہلاک ہونے سے گلہ بانی کے شعبہ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے . زیر زمین پانی کی سطح سالانہ 50سے 60فٹ نیچے جا رہی ہے جس کی وجہ بارشوں کی کمی اور ڈیمز کا نہ ہونا ہے بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح تین ہزار فٹ سے زیادہ ہے اور تین ہزار فٹ پر لوگوں نے ٹیسٹ بور لگائے ہیں، اگر کوئٹہ میں پانی ری چارج نہ ہوا تو پورے بلوچستان میں پانی کی شدید قلت ہوگی ظاہر ہے کہ اللہ نہ کریں اتنی بڑی آبادی ہے اگر پانی نہ ملیں تو یہ نقل مکانی پر مجبور ہوجائے گی . پانی زندگی ہے پانی کے بغیر لوگ کیا کریں گے ،آج بھی کوئٹہ اسی فیصد لوگ ٹینکر مافیا پر رحم و کرم پر ہے، حال ہی میں ٹینکرز نے کچھ دنوں کے لئے پانی کی سپلائی معطل کی تو چھ ہزار سات ہزار روپے میں ٹینکر مل رہا تھا اتنی بڑی رقم کون پانی کے لئے خرچ کرسکتا ہے، پانی کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا ہے حکومت کو اس کے لئے واضع اور جنگی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی ہوگی ، بارشوں کا بھی ایک ایک بوند پانی کو بچانے کی ضرورت ہے اس کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنانے ہوں گے، اس سلسلے ہم نے بارہا اسمبلی میں بھی آوازاٹھائی ہے قراردادیں پاس کی ہیں . کوئٹہ اور بلوچستان کے پانی کے مسئلے پر اور خشک سالی پر ہم نے بات کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کو آفت زدہ قرار دیا جائے . ہم نے اپنی آئندہ نسلوں کا پانی بھی نکال کر استعمال کرلیا ہے ہماری آئندہ نسلیں کیا کریں گی؟آئندہ تین چار سالوں میں بارشیں نہ ہوئے تو بڑی خطرناک صورتحال ہوگی حکومت کو اس سلسلے میں سوچنا ہوگا،حکومت کو جنگی بنیادوں پر کوئٹہ کے اطراف اور بلوچستان بھر میں جگہ جگہ چھوٹے ڈیلے ایکشن ڈیمز بنانے چاہیے تاکہ پانی ضائع ہونے سے بچ سکے چھوٹے بڑے ذخیرے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پانی ری چارج ہوسکے . بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ جیولوجی کے سابق پروفیسر ڈاکٹردین محمد کاکڑ کے مطابق کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے جو خطرناک صورتحال اختیار کر سکتی ہے ان کا کہتا ہے کہ 30سال قبل زیر زمین پانی کی سطح صرف 500سے 600پر تھی وہ اب 1200سے 1500تک جا پہنچی، ان کے ایک سروے کے مطابق ہر سال زیر زمین پانی کی سطح 3سے 6 میٹر تک نیچے گِر رہی ہے جس کی وجہ ہر گھر کے اندر ٹیوب ویل کی تنصیب ہے . پروفیسر ڈاکٹردین محمد کے مطابق آئندہ 2 سے 3سال کوئٹہ کے لئے خطرناک کن سال ثابت ہو سکتے ہیں لوگ پانی کی کمی کے باعث کوئٹہ سے نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے،کیونکہ ہم نے اپنی اگلی ایک نسل کا پانی بھی استعمال کر لیا اب زیر زمین مزید پانی موجود نہیں ،ہم آئندہ نسل کے مجرم ہیں جن کا حق بھی پی گئے ٹینکر مافیا جو کہ تیزی اور بڑی بے دردی سے زیر زمین پانی نکال کر فروخت کر رہے ہیں یہ پہاڑوں کا فاضل پانی جسے بیڈ رراک( لائیو سٹون) کہا جاتا ہے نکال رہے ہے،زیر زمین پانی کی سطح گرنے کی سب سے بڑی مثال ہائیڈروجیکل ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جن ٹیوب ویلز کو 25سال تک کا ٹائم دیا گیا تھا جس کے بعد انہیں سوکھنا تھا وہ ٹیوب ویلز صرف 3سال میں خشک ہو گئے،مانگی ڈیم اور غزابند ڈیم کی باز گشت تو چل رہی ہیں لیکن کئی دہائیوں سے پروجیکٹ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا . آبادی میں اضافہ، پانی کا دوسرے زریعے سے بندوبست نہ ہونا اور زیر زمین پانی نکالنا ہمیں خودکشی کی جانب دھکیل رہا ہے ہمیں بارشوں کا پانی ضائع ہونے سے بچانا ہوگا اس کو محجوظ بنانے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات ناگزیر ہے . .