ان کی کامیابی نے اپوزیشن جماعتوں میں اعتماد اور جوش پیدا کیا ہے جس کا مشاہدہ کے پی اور وفاقی سطح پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تین سال سے زائد عرصے کے دوران پہلی بار ہوا ہے . 2018 میں اپنے آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے فضل الرحمان کی وفاقی نشست کی دوڑ میں شکست کے بعد ان کے سیاسی مخالفین اور تجزیہ کاروں اور مبصرین کی جانب سے انہیں اکثر ’بے روزگار سیاست دان‘ کا لیبل تفویض کیا جاتا رہا ہے جو ان کی سیاست سے نفرت کرتے ہیں . وہ اکثر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ چونکہ فضل الرحمان کو کئی سال گزرنے کے بعد بھی پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی سربراہی نہیں ملی ہے تاکہ دفتر سے منسلک مراعات اور مراعات حاصل کر سکیں، وہ اپنی چالوں سے پورے جمہوری نظام کو ہلا کر رکھ دینا چاہتے ہیں اور اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اکساتے رہتے ہیں . تاہم ان کے حمایتی اس سے متفق نہیں اور اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہیں کہ فضل الرحمان 2018 سے سیاسی ملازمت کے بغیر نہیں رہے . ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں جونیئر پارٹنر ہونے کے باوجود وہ متعدد اپوزیشن اتحاد کے سربراہ ہیں . ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی جمعیت علمائے اسلام فضل قومی اسمبلی میں تیسری سب سے بڑی جماعت ہے . اس کے علاوہ ان کے بیٹے جے یو آئی ایف کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ ہیں . اب ان کے داماد کو پشاور کے میئر بننے کے لیے اپنے حریفوں پر بلاشبہ برتری حاصل ہے . جے یو آئی ایف اور پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پر فضل الرحمان ہمیشہ پاکستان بھر میں متحرک رہے ہیں . . .
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)’بے روزگار سیاستدان‘ مولانا فضل الرحمان کی خیبرپختونخوا میں شاندار کارکردگی، ان کی کامیابی سے اپوزیشن جماعتوں میں اعتماد پیدا ہوا جسکا مشاہدہ وفاقی سطح پر PTI کے تین سال سے زائد عرصے میں پہلی بار ہوا .
تفصیلات کے مطابق ناقدین کی جانب سے ’بے روزگار سیاستدان‘ قرار دئیے گئے مولانا فضل الرحمان نے خیبرپختونخوا (کے پی) میں جزوی بلدیاتی انتخابات میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اگرچہ 2018 کے پارلیمانی انتخابات میں انہیں ذاتی طور پر انتخابی میدان سے باہر دھکیل دیا گیا تھا .
متعلقہ خبریں