انہوں نے کہا کہ ’پاکستان جاسوسی کے معاملے پربھارت کےخلاف ایکشن لینےجارہا ہے کیونکہ یہ پانامہ لیکس کے بھی بڑا معاملہ ہے، وزیراعظم، ملٹری شخصیات سمیت اہم سینئر لوگوں کی جاسوسی کی گئی، جس کی پہلے بھی اطلاعات تھیں‘ . مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’اسپائی ویئر کو پاکستان کےخلاف استعمال کیاگیا، بھارت نےاسرائیل کےذریعے پیگاسس سوفٹ ویئر کے ذریعے ہائبرڈ جاسوسی کی، یہ ایک سنگین معاملہ ہے، جس کو ایسے ہی نہیں چھوڑا جاسکتا ہے‘ . انہوں نے مزید کہا کہ ’ پاکستان یہ معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھائے گا، تحقیقات کے نتائج سے اقوام متحدہ اور دوسرےاداروں کوبھی آگاہ کیا جائے گا، پاکستان اپنی سلامتی،خودمختاری کےتحفظ کیلئے ہر قانونی قدم اٹھائےگا، ہم نے اقوام متحدہ سے بھی تحقیقات کامطالبہ کیا ہے، بھارت کیوں عمران خان کےفون کے پیچھے پڑا ہوا ہے؟ رپورٹ کےمطابق عمران خان کےفون پر ہیکرز نے حملہ بھی کیا . اُن کا کہنا تھا کہ ’بھارت نے سائبرجاسوسی کے ذریعے پاکستان کی سلامتی پر حملہ کیا، پاکستان کےخلاف عالمی فورم پر لابی کی جاتی تھی، کچھ عرصہ پہلے ڈس انفولیب نے بھارت کا بھانڈا پھوڑا تھا‘ . شہزاد اکبر نے کہا کہ ’بھارت نےسافٹ ویئرکا انتہائی غیرذمہ دارانہ استعمال کیا، ٹیکنالوجی سے10ممالک کےوزرائےاعظم کےفون کوٹارگٹ کیا گیا، فرانس نےاس معاملے پر تحقیقات شروع کر دی ہیں، پاکستان بھی جاسوسی کےمعاملے پربھارت کے خلاف قانونی کارروائی کرے گا‘ . . .
اسلام آباد (قدرت روزنامہ) بھارت نے سائبرجاسوسی کے ذریعے پاکستان کی سلامتی پر حملہ کیا، وزیراعظم، ملٹری شخصیات سمیت اہم سینئر لوگوں کی جاسوسی کی گئی، وزیراعظم عمران خان نے بھارت کے خلاف سخت ایکشن لینے کا اعلان کر دیا- تفصیلات کےمطابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے پیگاسس (اسپائی ویئر) کا معاملہ پانامہ لیکس سے بھی بڑا قرار دیا ہے اوراس معاملے پر بھارت کے خلاف ایکشن لینے کا کہا ہے، پاکستان اس معاملے پر بھارت کے خلاف ایکشن لے گا- اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اسپائی ویئرکامعاملہ پانامہ سےبھی بڑا ہے، پاکستان نے پیگاسس کے ذریعے جاسوسی کی تحقیقات کا فیصلہ کرتے ہوئے کمیٹی تشکیل دی ہے .
انہوں نے کہا کہ اسپائی ویئر جاسوسی کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی جانے والی کمیٹی میں سیکیورٹی اداروں اور دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام شامل ہوں گے، جو معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے کر شواہد اکھٹے کریں گے، جس میں دو سے تین ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے‘ .
متعلقہ خبریں