افغان وزارت داخلہ نے کہا کہ پولیس نے کابل میں آپریشن کے دوران حملے میں ملوث 4 طالبان جنگجوؤں کو گرفتار کر لیا، حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا . وزارت داخلہ کے ترجمان میر واعظ استانکزئی نے ویڈیو پیغام کے ذریعے صحافیوں کو بتایا کہ 'کمانڈر مومن اور اس کے تین ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان سب کا تعلق طالبان گروپ سے ہے' . انہوں نے کہا کہ مومن راکٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا جبکہ گروپ دیگر حملوں میں ملوث ہے . صدارتی محل کو گزشتہ سال اس وقت بھی نشانہ بنایا گیا تھا جب سیکڑوں افراد دوسری مدت کے لیے اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں شریک تھے . اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا . طالبان حالیہ سالوں میں اسلامی تہواروں کے دوران سیز فائرز کا اعلان کرتے رہے ہیں جس دوران افغان شہری باحفاظت اپنے عزیز و اقارب سے ملاقاتیں کرتے تھے، لیکن اس بار ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا . صدارتی محل کے قریب راکٹ حملہ اس وقت کیا گیا جب طالبان، امریکا کی زیر قیادت غیر ملکی افواج کے انخلا کے آخری مراحل میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے مختلف اضلاع، بارڈر کراسنگز پر قبضے کر رہے ہیں . ملک کے مختلف حصوں میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائیاں جاری ہیں جبکہ دونوں فریقین کے درمیان امن مذاکرات میں بھی جنگ کے خاتمے کے لیے تاحال کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے . پرتشدد واقعات میں کمی کے لیے افغان حکام نے ہفتہ کو ملک کے 34 میں سے 31 صوبوں میں رات کے اوقات کے لیے کرفیو نافذ کردیا تھا . . .
(قدرت روزنامہ)افغان فورسز نے عیدالاضحیٰ کی نماز کے دوران کابل میں صدارتی محل کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے راکٹ حملے میں ملوث کمانڈر سمیت 4 طالبان جنگجوؤں کو گرفتار کر لیا .
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق منگل کو صدارتی محل کے قریب اس وقت تین راکٹ آکر گرے تھے جب صدر اشرف غنی اور ان کے اعلیٰ عہدیدار محل کے احاطے میں کھلے مقام پر نماز عید ادا کر رہے تھے .
متعلقہ خبریں