مارچ میں حکومت کے خلاف 2 لانگ مارچ۔۔۔!!!کیا عمران حکومت اپنی مدت پوری کر سکے گی کہ نہیں ؟تہلکہ خیز سیاسی تجزیہمارچ میں حکومت کے خلاف 2 لانگ مارچ۔۔۔!!!کیا عمران حکومت اپنی مدت پوری کر سکے گی کہ نہیں ؟تہلکہ خیز سیاسی تجزیہ

 

لاہور (قدرت روزنامہ)نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔دیکھا جائے تو حقیقی طور پر کوئی سیاسی جماعت بھی فوری انتخابات کے لئے تیار نہیں، کہنے کو بلاول بھٹو زرداری بھی یہ مطالبہ داغتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) بھی یہی مطالبہ کرتی ہے کہ فوری نئے انتخابات کرائے جائیں۔

جماعت اسلامی کا بھی یہی مطالبہ ہے اور جمعیت علمائے اسلام بھی یہی کہتی ہے، لیکن آج تک یہ سب جماعتیں ایک جگہ بیٹھ کر اس مطالبے کے حق میں پریس کانفرنس تک نہیں کر سکیں۔ یوں لگتا ہے یہ سب ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں کہ وہ کہیں اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل نہ کرے۔ پیپلزپارٹی یہ شوشہ بھی چھوڑ دیتی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے، مسلم لیگ(ن) ہمارا ساتھ دے۔ جب نئے انتخابات ہی کرانے ہیں تو عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فائدہ کیا ہے، یہ ایک عرصے سے حکومت مخالف موقف میں دراڑ ڈالنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ماضی میں پی این اے کی تحریک ہو یا اے آر ڈی کی یا پھر اسلامی جمہوری اتحاد کی، سب میں حکومت ایک طرف ہوتی تھی اور اپوزیشن دوسری طرف، عمران خان خوش قسمت ہے کہ انہیں شروع دن سے ایسی اپوزیشن ملی جو خود متحد نہیں، بظاہر اس کا ہدف ایک ہے لیکن راستے جدا جدا ہیں، یہی وجہ ہے حکومت کو ان ساڑھے تین برسوں میں کبھی بھی کسی ایسی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو اس کے لئے واقعی کسی خطرے کا باعث ہو۔ بعض اوقات تو اپوزیشن کی تحریک ایک مذاق بن کر رہ گئی۔ ہاں ایک وقت ایسا ضرور آیا تھا جب پی ڈی ایم اپنے مقصد کے قریب پہنچ گئی تھی۔ چوٹ نشانے پر لگنے لگی تھی کہ پیپلزپارٹی نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی۔ علیحدگی اختیار کر لی۔ یہ بہت بڑا جھٹکا تھا جو اپوزیشن کی تحریک کو لگا اور سچی بات یہ ہے اس جھٹکے کے بعد اپوزیشن ابھی تک سنبھل نہیں سکی۔

منزل کے اتنے قریب پہنچ کر اس طرح خشک پتوں کی طرح بکھر جانا، اس بات کو ظاہر کرتا ہے، ڈوریں کہیں اور سے ہل رہی تھیں اور کچھ ایسے اشارے ہوئے تھے، جنہوں نے ساری گیم ہی پلٹ کر رکھی دی۔یہ بھی حقیقت ہے اس عمل سے پیپلزپارٹی کی ساکھ کو بہت نقصان پہنجا تھا۔ پہلی بار اس پر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے الزامات بھی لگے تھے۔ اس موقع پر آصف علی زرداری کے نوازشریف کے خلاف بیانات نے بھی اس تاثر کو مضبوط کیا تھا۔ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی حکومت کو بھول کر ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑی ہوئیں۔ پیپلزپارٹی کو حکومت کی بی ٹیم ہونے کا الزام بھی دیا گیا۔ کچھ عرصے کے لئے تو واقعی پیپلزپارٹی منظر سے ایک اپوزیشن پارٹی کے طور پر غائب ہو گئی۔ بلاول بھٹو زرداری کے بیانات کو صرف دکھاوے کی کارروائی کہا جانے لگا۔ خیر وہ وقت گزر گیا۔ 2022ء آ گیا ہے، اگلا سال تو ہر صورت میں انتخابات کا ہے، اس لئے کوئی سیاسی جماعت بھی خاموش ہو کر نہیں بیٹھ سکتی۔ اس لئے پیپلزپارٹی بھی لنگر لنگوٹ کس کے میدان میں آ گئی ہے۔ مصقد صرف اپنے وجود کو منوانا ہے، حکومت کو گھر بھیجنا ہرگز نہیں، اس کی وجہ یہ ہے اگر مقصد حکومت کو گھر بھیجنا ہو تو پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں پیپلزپارٹی شمولیت کا اعلان کر دے۔ ایسے اعلان کی صورت میں حکومت کے خلاف ایک بڑا شو ہو سکتا ہے، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

پی ڈی ایم سے پہلے لانگ مارچ کی تاریخ دے کر پیپلزپارٹی یہ تاثر بھی دینا چاہتی ہے کہ حکومت کی مخالفت میں وہ پی ڈی ایم سے آگے ہے۔ حالانکہ پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ صرف اور صرف عوامی رابطے کی ایک مہم ثابت ہوگا۔اس کا مقصد حکومت گرانا ہرگز نہیں۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی کو کم از کم پنجاب کی حد تک ایک بڑے سیاسی شو کی ضرورت ہے۔ سندھ سے بڑے قافلے جب پنجاب میں داخل ہوں گے تو لاہور تک آتے آتے لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد اتنی ضرور ہو جائے گی کہ پیپلزپارٹی کی کچھ لاج رکھ سکے۔مارچ میں دو لانگ مارچ ہونے جا رہے ہیں، کیا حکومت ان سے پریشان ہو گی۔ میرا نہیں خیال کہ اس پر کوئی بہت زیادہ دباؤ پڑے۔ ہاں اسلام آباد پہنچ کر ان دونوں کی حکمتِ عملی کیا ہوتی ہے، اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔کیا وہاں دھرنا دیا جاتا ہے، تحریک انصاف کے خلاف اسی کی تاریخ دہرائی جاتی ہے؟ شائد ایسا ممکن نہ ہو،کیونکہ اپریل کے شروع میں ماہ رمضان بھی شروع ہو جائے گا۔ پیپلزپارٹی تو ویسے بھی دھرنا سیاست کی قائل نہیں، وہ اسلام آباد پہنچ کر ایک جلسے کی بعد کارکنوں سمیت گھروں کو لوٹ جائے گی، البتہ مولانا فضل الرحمن اپنی حکمت عملی کو خفیہ رکھے ہوئے ہیں، تاہم پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ دھرنا سیاست اس کا بھی شیوہ نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما تو ابھی سے کہہ رہے ہیں، لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ اس بارے میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جلد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ ساری باتیں حکومت کو سیاسی ریلیف دینے کے مترادف ہیں، بلکہ کل تو مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ رہے تھے۔ اب شاید کسی لانگ مارچ یا دھرنے کی ضرورت پیش نہ آئے، کیونکہ حکومت کے خلاف فارن فنڈنگ کیس ہی اس کے خاتمے کے لئے کافی ہے۔ گویا اپوزیشن حکومت گرانے کے لئے تنکے کا سہارا بھی غنیمت سمجھتی ہے۔ کیا ایسی اپوزیشن سے حکومت کی صحت پر کوئی منفی اثر پڑ سکتا ہے؟

Recent Posts

بھارتی اداکارہ ودیا بالن کی گاڑی کو حادثہ

ممبئی(قدرت روزنامہ)بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ ودیا بالن حال ہی میں ایک خطرناک کار حادثے…

46 mins ago

پاکستان اور آذربائیجان کا قانونی تعلیم و تربیت کیلئے ورکنگ گروپ قائم کرنے پر اتفاق

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور آذربائیجان کے سفیر نے دونوں ممالک کے درمیان…

54 mins ago

ڈاکٹر ذاکر نائیک نے شاہ رخ خان کو لاجواب کردیا

ممبئی(قدرت روزنامہ) عالمی شہرت یافتی مذہبی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بالی ووڈ کے سپر…

57 mins ago

سیالکوٹ میں زمین کے تنازع پرگاڑی پرفائرنگ،7افرادقتل

سیالکوٹ (قدرت روزنامہ)پسرور قلعہ کالر والا کے علاقہ میں 7 افراد کو پرانی دشمنی کی…

1 hour ago

روزگار کی تلاش میں کمبوڈیا جانے والے سینکڑوں پاکستانی پھنس گئے

فنوم پین (قدرت روزنامہ)روزگار کی تلاش میں سیکڑوں پاکستانی کمبوڈیا میں پھنس گئے ہیں، پاکستان…

1 hour ago

بھارتی باولر ایشون نے مرلی دھرن کا اہم ریکارڈ برابر کردیا

ممبئی(قدرت روزنامہ)بھارتی سپنر روی چندرن ایشون نے سری لنکا کے سابق لیجنڈری سپنر مرلی دھرن…

1 hour ago