علی سدپارہ کا جسد خاکی ملنے کی تصدیق ہوگئی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)قومی ہیرو اور کے ٹو پہاڑی سر کرنے کے دوران لاپتہ ہونے والے کوہِ پیما محمد علی سدپارہ کی لاش مل گئی . وزیر اطلاعات گلگت بلتستان فتح اللہ خان کے مطابق محمد علی سدپارہ سمیت 3 کوہ پیماؤں کی لاشیں ملی ہیں .

انھوں نے بتایا کہ ساجد سدپارہ اور ان کے ساتھ موجود کوہِ پیما نے لاشوں کا پتا چلایا . وزیراطلاعات گلگت بلتستان نے کہاکہ جلد تینوں کوہ پیما کی لاشوں تک پہنچ جائیں گے، تین کوہ پیماؤں کی لاشیں بوٹل نیک بیس کیمپ سے ملی ہیں . انھوں نے بتایا کہ ابھی ریسکیو کے لیے ہیلی کاپٹر اسٹینڈ بائی ہیں . انہوں نے کہاکہ کہ لاشوں کے کپڑوں سے لگتا ہے کہ ایک لاش جان اسنوری کی ہوسکتی ہے . دوسری جانب کوہِ پیماؤں کے لیے پہاڑیوں کی مہم جوئی کے انتظامات کرنے والی کمپنی الپائن ایڈوینچر گائیڈز نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے ان کی لاش کی موجودگی کی اطلاع دی تھی . اس پیغام میں کمپنی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ محمد علی سدپارہ کی لاش کے 2 کی پہاڑی کے بوٹل نیک مقام سے 300 میٹرو دور ملی ہے . انہوں نے کہاکہ کیمپ نمبر 4 کے پاس 300 میٹر نیچے دو لاشیں ملی ہیں . خیال رہے کہ رواں سال فروری کے دوران کے ٹو پر موسم کی خرابی کے باعث محمدعلی سدپارہ سمیت 2 کوہ پیما لاپتہ ہوگئے تھے . واضح رہے کہ چوبیس جولائی کو خبر آئی تھی کہموسم سرما میں مہم کے دوران لاپتا ہونے والے تین کوہ پیماؤں کی تلاش کیلئے ساجد سدپارہ سمیت 3 رکنی ٹیم کے ٹو پر موجود ہے اور اب تک 7ہزار 800 میٹرز کی بلندی پر پہنچ چکے ہیں . یہ بات البائن کلب آف پاکستان نے اپنے بیان میں بتائی لاپتا کوہ پیماؤں میں ساجد سد پارہ کے والد محمد علی سدپارہ بھی شامل ہیں . اس سے قبل فروری 2021 میں محمد علی سد پارہ اپنے دو کوہ پیما ساتھیوں آئس لینڈ کے جوہن سنوری اور چلی کے جاون پیبلی موہرکے ساتھ لاپتا ہوگئے تھے . تینوں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کی اونچائی 8 ہزار 6 سو 11 میٹرز ہے . 2021 تک کے 2 دنیا کے دیگر 8 ہزار میٹرز سے بلند پہاڑوں کے مقابلے میں واحد چوٹی تھی جسے موسم سرما میں سر نہیں کیا جاسکا تھا اور اسی وجہ سے وہ متعدد کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی . علی سد پارہ پاکستان کے واحد کوہ پیما ہیں جو دنیا کے 8 ہزار میٹرز سے زیادہ 14 بلند ترین پہاڑوں میں سے آٹھ سر کرنے میں کامیاب رہے اور سرد موسم میں نانگا پربت سر کرنے والے پہلے کوہ پیما بھی ہیں . الپائن کلب پاکستان کے سیکریٹری قرار حیدری نے بتایا کہ موسم خراب ہونے سے قبل ساجد سدپارہ اور ان کی ٹیم کے دو اراکین علیاسیکالیاور پسنج کاجی شرپا جس حد تک ہوسکا، ممکنہ بلندی تک پہنچنے میں کامیاب رہے، ان کی مہم کا مقصد یہ جاننا ہے کہ لاپتا کوہ پیماؤں کے ساتھ کیا ہوا . قرار حیدری نے کہا کہ سرچ ٹیم 7ہزار 800 میٹرز پر پہنچنے کے بعد 8300 میٹر بلندی تک ڈورنز استعمال کرکے آگے کے راستوں کو اسکین کررہی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ گمشدہ کوہ پیماؤں کے آثار کی جانچ پڑتال بھی کی جارہی ہے . انہوں نے کہا کہ گمشدہ کوہ پیماؤں کا تاحال کوئی سراغ نہیں ملا . انکا کہنا تھا لپ علیا سیکلےفروری میں کے ٹو پر ہونے والے حادثے کی دستاویزی فلم بھی بنا رہے ہیں . دوسری جانب الپائن کلب آف پاکستان نے یہ بھی بتایا کہ اناستاسیہ (ناستیا) رونوا براڈ پیک کو سر کرنے کے بعد حادثے کا شکار ہوئی تھی تاہم انگلیوں میں فروسٹ بائٹ کے علاوہ روسی کوہ پیما کو کسی قسم کا مزید نقصان نہیں ہوا . الپائن کلب پاکستان کے مطابق روسی کوہ پیما 100 کلو میٹر سے پھسل گئی تھیںلیکن کچھ آرام کے بعد وہ بحفاظت بیس کیمپ تک پہنچ گئیں تاہم کوریا کے کوہ پیما کِم ہونگ بن خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے اور وہ پیر کے روز 80 ڈگری سے گرنے پر جان کی بازی ہار گئے . الپائن کلب کے مطابق وہ 8 ہزار 47 میٹرز کے اونچے پہاڑ پر7900 میٹرز تک پہنچے تھے . یاد رہے کہ دیگر مہمات کیلئے موسم بہتر ہونے کا انتظار کیا جارہا ہے،امید ہے کوہ پیماؤں کے گروپس اگلے ہفتے کے ٹو اور براڈ پیک کو سر کرنے کیلئے روانہ ہوں گے . . .

متعلقہ خبریں