لوگوں کو قریب لانے اور ساتھ لیکر چلنے کیلئے ضروری ہے کہ بلوچستان کو اسکا حق دیا جائے، امیر حیدر ہوتی

کو ئٹہ(قدرت روزنامہ)عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ بلوچستان کو قریب لانے اور ساتھ لے کر چلنے کے لئے ضروری ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو ان کا حق اورچین کی طرز پر سی پیک منصوبے سے کم ترقیاتی یافتہ علاقوں کو ترقی دی جائے ، مہنگائی ، غربت اور افلاس نے عوام کا جینا دوبھر کر دیاہے ، برسراقتدار وزیراعظم کہا کرتے تھے کہ ملک میں مہنگائی تب ہوتی ہے جب حکمران کر پٹ ہوں موجودہ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے عمران کو ایماندار کہا جائے یا کرپٹ ؟ اب تو پی ٹی آئی کے اندر سے بھی ان کی مخالفت کی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں بلکہ ایک مرتبہ پھردہشت گردی اور دہشت گرد سر اٹھانے لگے ہیں ، ہم چیخ رہے ہیں کہ اس جانب توجہ دی جائے ایسا نہ ہو کہ معلات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائے ، نیشنل سیکورٹی پالیسی بنانے کا واویلا کیا جارہا ہے جو نیشنل پالیسی ہے ہی نہیں کیونکہ نیشنل پالیسی کے لئے قوم کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اسے پارلیمنٹ لا کر عوامی نمائندوں کی رائے لی جاتی ہے مگر ایسا نہیں کیا گیا اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قومی سیکورٹی پالیسی نہیں بلکہ اسے عمران یا پی ٹی آئی سلامتی پالیسی کہا جاسکتا ہے ۔ ،جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین، صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی و دیگر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ وہ پارٹی اور مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین اے این پی بلوچستان کی دعوت پر گزشتہ 3دنوں سے بلوچستان میں موجود ہیں جس کا بنیادی مقصود فخر افغان باچاخان بابا اور رہبر تحریک ولی خان بابا کی برسی کی تقریبات میں شرکت کرنا تھا ، برسی کی تقریبات پورے ملک سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں جاری ہیں جو جنوری کے آخری تک جاری رہیں گی ۔ ہم نے پہلے کوئٹہ اور پھر ہرنائی میں جلسہ عام میں شرکت کی ، میں پارٹی کے تمام ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی محنت کے بدولت کامیاب جلسوں کا اہتمام کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ شدید سردی اور بارش کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں کارکنان نے ہرنائی جلسے میں شرکت کی ، میں نے اپنی زندگی میں ایسا منظر نہیں دیکھا تھاکہ رات سے بارش ہورہی ہو اس کے باوجود بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلسے میں شریک ہو ۔ اس موقع پر انہوں نے باچاخان اور ولی خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ باچاخان نے انسانیت کی خدمت ، امن ، ترقی اور اپنے لوگوں کے روشن مستقبل کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی اسی طرح رہبر تحریک ولی خان باچاخان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے اپنے قوم کی نمائندگی کی ، آج اے این پی ہی نہیں بلکہ پوری قوم باچاخان اور ولی خان بابا کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے ، ہم ان کے پیروکاروں کی حیثیت سے یہ عہد کرتے ہیں کہ جو راہ وہ ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں ہم اسفند یار ولی خان کی قیادت اسی راہ پر اپنے سفر کو جاری رکھیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز صوبائی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس میں مختلف امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ، تنظیمی امور ، ملک اور بلوچستان کے سیاسی صورتحال سمیت آنے والے بلدیاتی انتخابات سے متعلق مشاورت کی گئی ۔ امیر حیدر خان ہوتی نے کہاکہ ہرنائی میں مجھے بتایا گیا کہ کافی سال پہلے ہرنائی میں گیس دریافت ہوئی مگر آج تک مقامی آبادی گیس کی سہولت سے محروم ہے ، میرے خیال اور معلومات کے مطابق یہ شکوہ صرف ہرنائی کے لوگوں کا یہ نہیں بلکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں کے عوام کا بھی ہے ، اے این پی بلوچستان کے لوگوں کی آواز بن کر پوچھنا چاہتی ہے کہ یہ ملک آئین کے مطابق چلانا ہے یا کسی اور نظام اور قانون کے تحت ۔ اگر آئین کے مطابق چلانا ہے تو آئین کے آرٹیکل 158سب پر واضح ہے کہ جس صوبے میں قدرتی گیس دریافت ہوگی سب سے پہلے اس صوبے کی ضرورت کو پورا کیا جائے گا اس کے بعد یہ سہولت پورے ملک کے لئے ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہ وسائل جہاں دستیاب ہونا چاہیے وہ وہاں دستیاب نہیں ہیں۔ اسی طرح سے بتایا گیا کہ پاکستان کی آزادی قبل ہی وہاں کوئلہ دریافت ہوا لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ اس وقت لے کر آج تک لیز اونرز کا تعلق بلوچستان سے نہیں ہیں ، مقامی لوگوں کی بجائے بلوچستان سے باہر بیٹھے کر منافع لے رہے ہیں ، یہ صرف کوئلہ اور گیس کی بات نہیں بلکہ جتنے بھی وسائل بلوچستان سے نکل رہے ہیں ان سب کے بارے میں یہی آواز اٹھ رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں گوادر میں بہت بڑی تعداد میں لوگ بشمول خواتین اور بچے کے اپنے حق کے لئے نکلے ، ہم نے احساس محرومی کو ختم کرنا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ انہی چیزوں سے احساس محرومی پیدا ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر کسی نے بلوچستان کو قریب لانا اور ساتھ لے کر چلنا ہے تو پھر بلوچستان کے لوگوں کو ان کا بنیادی حق ضرور دے جو پاکستان کے آئین نے انہیں دیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ آج ریکوڈک کے حوالے سے بہت بڑے خدشات موجود ہیں جو جائز ہیں اس جانب سے توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر توجہ نہیں دی گئی تو اس سے احساس محرومی اور اعتماد کے فقدان میں مزید اضافہ ہوگا جس سے فیڈریشن کمزور ہوگی ۔ انہوں نے کہاکہ سی پیک کے حوالے سے خیبر پشتونخوا کے خدشات پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں میرے خیال سے سی پیک چین سے شروع ہو کر گوادر پر ختم ہوتا ہے ہم سی پیک کے لئے جتنا خیبر پشتونخوا کے لئے بات کرتے ہیں اتنا ہی بات ہم بلوچستان اور بلوچوں کے لئے کرتے ہیں ۔ ادھر بھی چین کی طر زپر کم ترقیاتی علاقوں اور وہاں رہنے والوں کو ترقی دی جائے ۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں ساڑھے تین سال سے موجودہ حکومت نے قرضے لے کر ملک کی معیشت کوتباہ کیا ہے ، اسی دوران غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا وہ سب کے سامنے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر مشکل کا حل ان کے پاس موجود ہیں اور اس کے لئے ان کے پاس بہترین منصوبہ ہے جس پر عمل درآمد کرنے کے لئے بہترین لوگ بھی دستیاب ہیں ، آج وہ بتائے کہ وہ کہاں گئے وہ لوگ اور منصوبہ ۔ انہوں نے کہا کہ آج کے برسراقتدار وزیراعظم کہا کرتے تھے کہ مہنگائی تب ہوتی جب حکمران اور حکومت کرپشن شروع کرے ، آج ہمیں جواب دیا جائے کہ آج جتنی مہنگائی بڑھی ہے اس کی تو تاریخ میں مثال نہیں ملتی تو آج اسے ایماندار یا کرپٹ کہا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر منی بجٹ لایا گیا اور اسے پارلیمنٹ میں بلڈوز کیا گیا جس کی وجہ سے ساڑھے 3سو زائد کے نئے ٹیکسز آئے ، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کو بڑھایا گیا اور اب گیس کی قیمت بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ باہر سے جو گیس درآمدکی جارہی ہے اس کی قیمت کو مقامی گیس کے ساتھ مرج کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جب ملک کی معیشت خراب ہوجاتی ہے تو لوگوں کو مراعات دی جاتی ہے ان پر بوجھ نہیں ڈالا جاتا مگر ملک عوام پر بوجھ ڈالا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ منی بجٹ کی ہم نے پارلیمنٹ کے اندر بھی اور باہر بھی مخالفت کرتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے وہ شرائط جو ملک کے عوام کے مفادات کے برخلاف ہوں نہیں ماننے چاہیے ۔ اب تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے مخالفت کی آواز نکلنا شروع ہوگئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کچھ عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گردی اور دہشت گرد پھر سے سر اٹھانے لگے ہیں اور مختلف واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ کئی پر سیکورٹی فورسز ، پولیس ، عام عوام کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے تو کئی پر لوگوں کو اغوا کیا جارہا ہے ۔ میں پچھلے ایک سال سے چیخ رہاہے کہ اس جانب توجہ دیا جائے ایسا نہ ہو کہ ہم پھر خدانخواستہ پوائنٹ آف نو رٹرن پر پہنچ جائے ۔ نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عمل درآمد ہوا کسی کو نہیں پتہ ۔ نیشنل سیکورٹی پالیسی بنائی گئی اور وزیراعظم بڑے فخر سے کہہ رہا ہے کہ پہلی مرتبہ نیشنل سیکورٹی پالیسی بنائی گئی ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ یہ پالیسی قومی کہاں سے ہوگئی کیونکہ قوم کی نمائندگی پارلیمنٹ کرتی ہے کیا یہ پالیسی منظور کرنے سے قبل اس پر پارلیمنٹ میں بحث کی گئی یا پھر باقی جماعتوں کے اراکین سے اس پر رائے لی گئی اس لئے ہم سمجھتے ہیںکہ یہ نیشنل پالیسی نہیں اسے عمران یا پی ٹی آئی سیکورٹی پالیسی کہا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت سے مجھے توقع نہیں ، ریاست سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر ریاست چاہتا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی بنے تو یہ جو بھی تجاویز ہیں انہیں پارلیمنٹ میں پیش کرکے سیاسی قائدین ، پارٹیوں اور عوام کے سامنے رکھے جائیں تاکہ اس پر ایک رائے قائم ہوسکے ۔ اگر اسی طرح بغیر مشاورت کے پالیسیاں بنائی گئی تو اس کا انجام بھی انہی ناکام پالیسیوں کی طرح ہوگا جو ماضی میں بغیر مشاورت کے بنائی گئی تھی ۔ انہوں نے کہاکہ آج سے 40سال قبل دنیا کی دو بڑی قوتیں آپس میں لڑ پڑی ، ان کی آپس کی جنگ افغانستان کی سرزمین پر لڑی گئی اور ہم اس جنگ میں شامل ہوگئے ، اس وقت جب پشتون اکابرین بزرگوں نے کہاکہ یہ پرائی جنگ ہے تو اس پر غدار کے ٹھپے لگے اور 40سال بعد سب نے سمجھاکہ ہاں وہ پرائی جنگ تھی ہمیں اس میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ آج میں اشارتا کہہ رہا ہوں کہ ایک اور جنگ اس خطے میں ہمیں نظر آرہی ہے ، کوئی اپنا اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ کوئی اس کا راستہ روکنے کی کوششوں میں لگے ہیں اور درمیان میں ہم ہیں اگر اس صورتحال میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ اللہ نہ کرے کہ وہ تنازعہ بھی پشتونوں کی سرزمین پر ہو ، اور اس کے منفی اثرات بھی سب سے پہلے ہمارے لئے ہو ، اس لئے آج ریاست سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس جانب توجہ دیا جائے تاکہ ایک بار پھر ایسا نہ ہو کہ ایک پرائی جنگ میں پھنس کر رہ جائے اور پھر سے ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے ۔انہوں نے کہاکہ افغانستان کے حوالے سے ہم فکر بندہیں کیونکہ ہمسایہ ملک افغانستان سے اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں ، اس وقت افغانستان سنگین مالی صورتحال سے دوچار ہیں ، خبریں آرہی ہیں لوگ اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہیں اور وہاں مختلف واقعات میں لوگ بھی مارے جارہے ہیں، ابھی بھی وہاں سے امن وامان کی صورتحال میں بہتری کی خبریں نہیں آرہی ۔ انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں جو بھی حکومت ہو وہ افغان عوام کی حمایت یافتہ ہو اور وہ پورے افغانستان کو ساتھ لے کر چلے ۔ مگر ابھی تک وہاں پر ایسا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ۔ بین الاقوامی دنیا سے گزارش ہے کہ افغان عوام کو اکیلا نہ چھوڑے اور وہاں کے عوام کی مشکلات پر توجہ دے اگر ایسا نہ کیا گیا اور افغانستان اس سے زیادہ ڈی اسٹیبلائز ہوجاتا ہے تو اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہوگا بلکہ پورا خطہ اس سے متاثر ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی ،رویہ ، ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے میرے خیال سے یہ دو راستے بچے ہیں یا تو ملک بچے گا یا پھر یہ حکومت بچے گی ، اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کو بچانا ہے یا پھر عمران صاحب کو ؟ عمران کو لانے کے بعد ان کے بچانے کے لئے ملک اس نہج پر پہنچ چکی ہے اب فیصلہ کا وقت ہے کہ ان میں سے ایک کو بچانا ہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی پاکستان کی سلامتی ، معیشت اور مفاد سب سے پہلی ترجیح ہے اس لئے اے این پی سمجھتی ہے کہ ملک کو بچانا ہے اور اگر ملک کو بچانا ہے تو پھر شاید عمران نہیں بچے ، انہوں نے کہا کہ 3سے 4مہینے انتہائی ہیں ہم نے انتخابی اصلاحات کی طرف جانا ہوگا ، ہر قسم کی مداخلت سے صاف شفاف انتخابات کرائے جائیں تاکہ عوام کو یہ موقع ملے کہ وہ صاف شفاف انتخابات کے ذریعے فیصلہ کرسکے ۔صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنے دور اقتدار میں مالاکنڈ میں مذاکرات کئے مگر اس سے قبل ہم نے تمام سیاسی پارٹیوں سے مشاورت اور متفقہ فیصلہ کیا اور پھر مذاکرات شروع کئے ، مگر ا س حکومت میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے مخالف نہیں بلکہ مذاکرات کے لئے ایک ساز گار ماحول کا ہونا ضروری ہے اور سب سے بڑ کر مذاکرات اور جنگ دونوں ایک ساتھ نہیںہوسکتے ۔ صدارتی نظام سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ خواہش آج کی نہیں کافی عرصے سے یہ خواہش چلی آرہی ہے کہ ملک میں صدارتی نظام آنی چاہےے ۔ جب بھی یہ تجربہ کیا گیا ہے تو اس ملک نے کیا پایا اور کیا کھویا یہ سب کو پتہ ہے ۔ میرے خیال سے پاکستان کے مسائل کا حل پارلیمانی نظام میں ہے صدارتی نظام کسی کا ذاتی خواہش ہوسکتاہے مگر اس میں ملک کے مسائل کا حل نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم پی ڈی ایم کا نہیں بلکہ اس وقت مشترکہ اپوزیشن کا حصہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ قانون ہوگا تو لوگ لاپتہ نہیں ہوں گے اگر قانون میں کوئی کمی ہے تو اس کمی کو دور کرنا ہوگی ۔

Recent Posts

تھانے پر حملے کا مقدمہ؛ پی ٹی آئی کے سابق رکن قومی اسمبلی اشتہاری قرار

کراچی(قدرت روزنامہ) پی ٹی آئی کے سابق رکن قومی اسمبلی کو تھانے پر حملے کے…

13 mins ago

پیپلز پارٹی کی رہنما ثمینہ گھرکی کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشست واپس مل گئی

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)الیکشن کمیشن نے پنجاب سے پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشست…

29 mins ago

توہین رسالت کے ملزم کی مبینہ مقابلے میں ہلاکت پر پولیس افسران معطل

عمر کوٹ(قدرت روزنامہ)توہین رسالت کے ملزم کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد میرپورخاص…

41 mins ago

معروف عالم دین ذاکر نائیک حکومتی دعوت پر پاکستان کا دورہ کریں گے

کراچی(قدرت روزنامہ) معروف بھارتی عالم دین اور مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پاکستان کے دورے…

56 mins ago

وزیراعظم شہباز شریف لندن چلے گئے، 23 ستمبر کو امریکا روانہ ہوں گے

اسلام آباد(قدرت روزنامہ) وزیراعظم شہباز شریف لاہور سے لندن چلے گئے، جہاں سے وہ 23…

1 hour ago

مریم اورنگزیب نے پی ٹی آئی جلسے میں خالی کرسیوں کی تصویر شیئر کردی

لاہور(قدرت روزنامہ) ن لیگی رہنما مریم اورنگزیب نے پی ٹی آئی جلسے میں خالی کرسیوں…

1 hour ago