اگر میرے والد کا بازو زخمی نہیں ہوتا تو وہ ہی میری جگہ ہوتے۔۔۔ جانیے اولمپکس میں پاکستان کی ترجمانی کرنے والے طلحٰہ طالب کی داستان

گوجرانوالہ (قدرت روزنامہ)پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوان اپنے بل بوتے پر کامیابی حاصل کر رہے ہیں، اپنی ہمت اور لگن سے خود کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں . ایسی ہی ایک کہانی کے بارے میں بتائیں گے جس میں لاہور کا نوجوان اپنی لگن، ہمت اور حوصلے سے اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے .

پہلوانوں کے شہر گجراںوالہ سے تعلق رکھنے والے طلحٰہ طالب ویٹ لفٹر ہیں جو کہ اپنے بل بوتے پر خود محنت کر کے ٹوکیو اولمپکس تک پہنچے ہیں . آج ان کے بارے میں بتائیں گے کہ وہ کس طرح اولپمکس تک پہنچے ہیں . مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والے طلحٰہ کے اس جنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طلحٰہ نے آٹھ سال کی عمر سے ہی ٹریننگ شروع کر دی تھی، جبکہ ٹریننگ کے کوچ بھی کوئی اور نہیں بلکہ طلحٰہ کے والد تھے . برطانوی خبررساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں طلحٰہ کا کہنا تھا کہ میرے والد بھی ویٹ لفٹر تھے مگر بازو میں تکلیف کے باعث ویٹ لفٹنگ نہیں کر سکتے ہیں، طلحٰہ نے اپنے والد کے خواب کو آگے لے کر چلنے کا فیصلہ کیا تھا . طلحٰہ کے والد کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کا نام روشن کریں، لیکن بازو زخمی ہو جانے کی وجہ سے وہ مقابلہ نہ کر سکے، لیکن ان کا بیٹا اس خواب کو پورا کر رہا ہے . طلحٰہ نے اپنے والد سے متعلق کہا کہ میرے والد صرف ایک باپ ہی نہیں بلکہ ایک بہترین کوچ بھی ہیں، والد کا سپنا میں پورا کر رہا ہوں، جس کی والد کو بے حد خوشی ہے . والد نے مجھے بالکل اسی طرح سکھایا ہے جیسے کہ ایک ویٹ لفٹر کو ٹرینر سکھاتا ہے . وہ مجھے میری غلطی پر برہمی کا اظہار بھی کرتے ہیں اور سپورٹ بھی کرتے ہیں . طلحٰہ کا کہنا ہے کہ میں نے بہت مشکل حالات میں ٹریننگ کی ہے، اُس وقت جب میرے پاس کچھ نہیں تھا نہ ہی ویٹ لفٹنگ کا سامان، اور نہ ہی جگہ، جبکہ میں اس وقت بھی ٹریننگ کرتا ہوں مگر وہ سہولیات میسر نہیں ہیں جو کہ ایک ویٹ لفٹر کو درکار ہوتی ہیں، اسی لیے میں نے اپنے استاد سے درخواست کر کے اسکول ہی میں ٹریننگ شروع کی . جب اسکول سے چھٹی ہوتی ہے یا پھر کلاس شروع ہونے سے پہلے کسی بھی وقت میں ٹریننگ مکمل کر لیتا ہوں . اس دوران کافی مشکلات پیش آتی ہیں مگر میں اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے محنت کرتا ہوں . طلحٰۃ نے اولمپکس میں جانے سے دو ماہ پہلے ایشئین چیمپئین شپ میں بہترین کارکردگی دکھائی تھی، اسی مقابلے میں طلحٰہ کے مد مقابل عالمی ویٹ لفٹر تھے . آئی ڈبلو ایف جو کہ ویٹ لفٹرز کی عالمی تنظیم ہے، اس تنظیم نے طلحٰہ کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے نام سیلیکٹ کیا اور صلاحیتوں کاعتراف کرتے ہوئے ٹوکیو اولمپکس میں شرکت یقینی بنائی . سہولیات کا فقدان:پاکستان میں ویٹ لفٹرز اس طرح محنت نہیں کرتے ہیں جس طرح عالمی طور پر کی جاتی ہے . طلحٰہ کا کہنا ہے کہ عالمی ویٹ لفٹرز 365 دن ویٹ لفٹنگ کی ٹریننگ کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہفتے میں تین دن کی جاتی ہے . سہولیات کے فقدان کا اس حوالے سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طلحٰہ کو پنجاب حکومت کی جانب سے اولمپکس میں پاکستان کی ترجمانی کرنے کی خبر سوشل میڈیا پر آنے کے بعد سہولیات کی فراہمی کا اعلان کیا گیا ہے . طلحٰہ نے ویٹ لفٹنگ کا یہ سفر اپنے والد کی مدد سے طے کیا ہے جس میں کوئی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں تھیں . حکومتی عدم توجہی:حکومت کی جانب سے اب تک کوئی خاطر خوا اقدامات نہیں کیے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ طلحٰہ سمیت دیگر نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت ہی اپنے ہنر اور صلاحیتوں کو اجاگر کر رہے ہیں . . .

متعلقہ خبریں