کوئٹہ(قدرت روزنامہ)ماہرین صحت نے پاکستان میں امراض قلب کے باعث خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح اموات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں امراض قلب کے باعث ہر گھنٹے میں 46افراد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ہر 4سیکنڈ میں ایک شخص کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے بلکہ ملک بھر میں فوت ہونے والے ہر4افراد میں سے ایک کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک ہے . ان خیالات کا اظہار آریا میڈیکل سینٹر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر و ماہرمعروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر سہیل خان،ماہر امراض شوگر و ہارمونز ڈاکٹر مطیع اللہ و دیگر نے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان میں امراض قلب و ذیابیطس کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا .
اس سے قبل چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان کے سنیئر نائب صدر محمد ایوب مریانی،نائب صدر امجد علی صدیقی و دیگر نے امراض قلب اور ذیابیطس کے ماہرین ڈاکٹرز کو چیمبر آنے پر خوش آمدید کہا اور امید ظاہر کی کہ سیمینار کے دورس نتائج برآمد ہوں گے سیمینار میں معروف کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر جلال اچکزئی،ڈاکٹر احمد ولی و دیگر نے بھی شرکت کی سیمینار کے شرکا سے اظہار خیال میں ڈاکٹر سہیل خان کا کہنا تھا کہ اگر چہ بلوچستان میں لوگ کینسر ہسپتال کے لئے وقتا فوقتا آواز بلند کرتے رہے ہیں ہم کہتے ہیں کہ کینسر جیسے مرض کےلئے ہسپتال ہونا چاہیے لیکن امراض قلب کے لئے 24/7سہولیات بارے کوئی بھی بات نہیں کرتا ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے امراض قلب کے دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں کام کیا جائے،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر 3اموات میں سے ایک کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک ہوتا ہے،پاکستان میں ہر چار سیکنڈ میں ایک شخص کو ہارٹ اٹیک ہورہا ہے اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ اموات امراض قلب کے باعث ہو رہی ہیں پریشان کن امر یہ ہے کہ پاکستان میں ٹین ایجرز کو بھی ہارٹ اٹیک ہو رہے ہیں دنیا کے بہت کم ممالک میں شاید ایسا ہو مگر پاکستان میں نوجوانوں کی ہارٹ اٹیک سے اموات کی شرح تشویشناک ہے یہاں اکثر لوگ 30سے 40 سال کے درمیان ہی امراض قلب کا شکار ہو جاتے ہیں اس عمر میں امراض قلب سے صرف ایک فرد ہی نہیں بلکہ پورا خاندان متاثر ہو جاتا ہے کیونکہ اس عمر میں ہم پر خاندان اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ جب دل متاثر ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ اپنی اصلی حالت میں نہیں آ سکتا انہوں نے کہا کہ ہارٹ اٹیک کی صورت میں ایک مریض کو 60 منٹ کے دوران ابتدائی طبی امداد کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو بلوچستان میں ممکن نہیں یہاں آبادیوں کے درمیان طویل فاصلوں نے صورتحال مزید گھمبیر بنا دیا ہے کسی بھی مریض کو 24/7 علاج کی سہولت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے ہم سب کو ذمہ داری نبھانا ہوگی،انہوں نے کہا کہ دل کے امراض کے علاج سے احتیاط بہتر ہیں ہارٹ اٹیک کے باعث پاکستان میں ہر گھنٹے میں 46افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں جو المیہ سے کم نہیں انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ان کے پاس 19 سالہ بچی لائی گئی جسے سینے میں شدید درد کی شکایت تھی اے سی جی کرانے پر پتہ چلا کہ اسے میجر ہارٹ اٹیک ہوا ہے جسے طبیعت بگڑنے پر ہم نے الیکٹرک شاکس دئیے اور پھر اسٹنٹس پاس کروائے گئے جس سے اس کی زندگی بچ گئی انہوں نے چیمبر کے عہدیداران و ممبران اور ڈاکٹرز پر زور دیا کہ وہ ورزش کو معمول بنا کر معیاری اشیائے خورد و نوش استعمال کریں اور بلڈ پریشر اور شوگر کے ٹیسٹ وقتا فوقتا کرتے رہے تاکہ مرض کو اس کی ابتدا میں ہی کنٹرول کیا جا سکے . ماہر امراض شوگر و ہارمونز ڈاکٹر مطیع اللہ نے شرکا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد دیابیطس جیسی خاموش قاتل مرض میں مبتلا ہے یہ مرض تمام جان لیوا امراض کی جڑ ہے،اس وقت چائنا اور انڈیا کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ شوگر کے مریض پاکستان میں موجود ہیں اس مرض کی خاص وجہ موٹاپا،ورزش کی کمی،غیر معیاری خوراک و دیگر ہیں اس وقت پاکستان کی 50 فیصد سے زائد آبادی موٹاپے کی شکار ہے تشویشناک امر یہ ہے کہ 50 فیصد سے زائد مریضوں میں اس کی علامات ظاہر ہی نہیں ہوتے اس وقت پاکستان میں شوگر کے ٹائپ ون کے مریضوں کی تعداد کی شرح پانچ فیصد ہے یہ بچوں اوران نوجوانوں کو لاحق ہوتی ہے جن کے جسم میں انسولین نہیں بنتا جبکہ 90 سے 95 فیصد مریض ٹائپ ٹو شوگر کے شکار ہیں جو فالج، ہارٹ اٹیک،گردوں کے ناکارہ ہو جانے اور نظر کی کمزوری دیگر امراض کا موجب ہیں اس سے بچا کے لیے لوگ طرز زندگی بد لیں اور روزانہ ورزش ،وزن کو کم کرنے اور معیاری خوراک کو اپنا شعار بنائیں . انہوں نے کہا کہ حالیہ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی شرح 17 فیصد ہے جبکہ بین الاقوامی ادارے آئی ڈی ایف کے اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح 20 فیصد ہے جو تشویشناک امر ہے اس وقت پاکستان میں 3ملین سے زائد لوگ شوگر کے مریض ہیں بلکہ ان کی تعداد ساڑھے کروڑ سے بھی زائد ہیں اس کی خاص وجہ پاکستان میں موٹاپا ہے لوگ اس خاموش قاتل بیماری سے بچنے کے لئے خون کا ٹیسٹ اور وزن کو کنٹرول کریں ورنہ صورتحال مزید کھمبیر ہوگی انہوں نے کہا کہ خواتین کو بھی حمل کے دوران شوگر کا مرض لاحق ہو سکتا ہے تاہم ان میں 90 فیصد مریض کو زچگی کے بعد اس مرض سے چھٹکارا مل جاتا ہے تاہم 10 فیصد خواتین عمر بھر کےلئے اس مرض میں مبتلا رہتی ہیں اس مرض کے علاج سے احتیاط بہتر ہے جسے لوگوں کو شعار بنانا ہوگا . سیمینار میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان کے عہدیداران و ممبران اور ڈاکٹرز کی جانب سے مختلف سوالات پوچھے گئے جن کے ماہرین نے جوابات دئیے .
. .