اختر مینگل سے حمل کلمتی تک سب قدوس حکومت سے فائدہ لے رہے ہیں ،جام کمال

لسبیلہ(قدرت روزنامہ) سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ بلوچستان میںاب ہمیں کھلی اور صاف شفاف سیاست کرنے کی ضرورت ہے میرے موقف میں کوئی فرق نہیں آیا پہلے بھی حقائق پر مبنی ٹویٹس کرتا رہاہوں اور آج بھی حکومت اور اپوزیشن کے حوالے سے اصلاحی اور واضح موقف رکھتا ہوں ،بی این پی مینگل کا ایم پی اے باپ پارٹی کے اجلاس میں بیٹھتا ہے وزیر اعلیٰ کے ہمراہ اسکے جہاز میں سفر کر رہا ہوتا ہے اور وزیر اعلیٰ کا ماتھا چومتا ہے لہٰذا بی این پی مینگل اپنے نظریہ کے فرق کو تسلیم کرے اور اس بات سے انکار نہ کرے کہ وہ قدوس بزنجو حکومت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اس گناہ میں شریک نہیں ہیں حکومت اپوزیشن اراکین کو مکمل سپورٹ کر رہی ہے گوادر میں حمل کلمتی کو سپورٹ کر رہی ہے خضدار میں سردار اختر مینگل ،کوئٹہ میں ثنائ بلوچ اور اختر حسین لانگو کو حکومت کی سپورٹ حاصل ہے اور کھل کر بتائیں کہ قدوس بزنجو کو ہم نے سپورٹ کیا ہے آج بھی کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے اور حکومت میں وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کو سپورٹ کر کے ان سے فائدے بھی لے رہے ہیں اور اپنے علاقے کے کام کرارہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان سب سے لاتعلقی مناسب نہیں ہے آج عوام سب کچھ دیکھ رہی ہے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے انھوں نے کہا کہ وہ جہاں پر بھی کوئی کمزوری دیکھتے ہیں چاہئے وہ ہماری حکومت بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت ہے قدوس بزنجو وزیر اعلیٰ ہیں وہ اپنی ٹوئیٹس کے ذریعے ہمیشہ اچھے مشورے دیتے رہتے ہیں کہ آپ ان چیزوں کی طرف توجہ دیں انھوں نے کہاکہ ہم بلوچستان کو خراب دیکھنا نہیں چاہتے جہاں ہمیں کمی بیشی محسوس ہو گی اور جو غلط چل رہا ہے جس سے صوبے کو نقصان ہوگا آنے والے وقت میں نقصان کا خدشہ ہوسکتا ہے اس پر ہم اپنی بات کریں گے وہ گزشتہ روز وڈیرہ اللہ داد سیاپاد گوٹھ میں وڈیرہ داﺅد سیاپاد کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہاکہ انھوں نے وزیر اعلیٰ کو بھی کہا ہے کہ وہ صوبے میں انتظامی ا±مور سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے اگر سیاسی اور انتظامی ا±مور ٹھیک نہ ہوں اور اگر انفرادی طور پر خوش رکھنے کی روایت ڈالی گئی تو بلوچستان میں اگلے دو تین سالوں میں اتنے خراب ہو سکتے ہیں کہ پھر شاید ٹھیک کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا انھوں نے کہاکہ انتظامی ا±مور کے حوالے سے کمشنر، ڈپٹی کمشنر ،تحصیلدار ،پولیس کو لوگوں کی سہولت کیلئے کام کرنے دیا جائے لیکن اگر ان انتظامی افسران کو مخصوص لوگوں کی بات سننے تک محدود کر دیا تو اس سے عوام کا احساس محرومی بڑھے گا اور مسائل پیدا ہونگے جام کمال خان نے کہا کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میںہر ضلع میں ایڈمنسٹریشن کو فعال رکھا اور انکی سخت نگرانی بھی کی لیکن بد قسمتی سے ان چار چھ مہینوں میں جو وہ دیکھ رہے ہیں اس میں نہ تو کوئی ڈپٹی کمشنر نہ کمشنر اور نہ ہی اسسٹنٹ کمشنروں کو کوئی پوچھتا ہے نہ انکی کوئی میٹنگ بلائی جاتی ہے سب کچھ چیف سیکرٹری پر بوجھ ڈال دیا گیا ہے آخر چیف سیکرٹری کتنا کام کرینگے جب وزیر اعلیٰ اور وزراءاپنے صوبے اور علاقے میں خود دلچسپی نہیں رکھیں گے تب تک مسائل کا حل ہونا ممکن نہیں انھوں نے کہاکہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان کا ایک عام آدمی اپنی آواز کہاں لے جائے اور جب تک اس مسئلہ پر توجہ نہیں دی جائے گی اسوقت بلوچستان کے حالات خراب سے خراب تر ہو تے جائیں گے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ آئی جی پولیس محمد طاہر رائے سے ایک اچھے آفیسر ہیں انکے تبادلے کی کوشش کرنا مناسب عمل نہیں جام کمال خان نے نئے ضلع حب کے قیام کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ نئے ضلع حب کا ایشو بڑا سنجیدہ ہے اور اس بارے میں سردار محمد صالح بھوتانی اپنے کوئٹہ میں ایک تفصیلی انٹرویو بھی دیا تھا انھوں نے کہا کہ سردار بھوتانی سات آٹھ بار حب دریجی سے ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں اور اگر ترقیاتی عمل کے حوالے سے ضلع بننے سے کوئی فرق نہیں آتا لیکن ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے معاملات مختلف ہوتے ہیں اور سات آٹھ بار ایک حلقے کا ایم پی اے بنا ہواور پھر بھی شہر کا حال یہ ہو تو اور وہ خود کہتے ہیں کہ حب میں ترقیاتی عمل نہیں ہوا تو اس ایم پی اے کے اپنے فنڈز پر بھی نظر دوڑانی چاہئے اور حب اتنا بڑا شہر تو نہیں ہے جتنا باقی ضلع لسبیلہ کا فی بڑا ہے جام کمال خان نے کہاکہ وہ اس بات کے مخالف نہیں کہ نئے اضلاع نہیں بننے چاہیں بالکل بننے چاہیں لیکن مقصد صرف یہ ہے کہ صرف ڈی سی ،ایس پی ،4ایکسین اپنے ہوں اور بس اس حد تک ضلع چاہئے تو تو پھر یہ نقصان ہے اگر پیرکس میں پانی کی نالی صاف کرانی ہے تو اسکے لیئے نیا ضلع بنانے کی ضرورت ہے انھوں نے کہاکہ صرف یہ کہنا کہ حب کی آبادی بڑھ گئی ہے تو نیا ضلع بننا چاہئے تو پھر دیکھا جائے تو تربت کی آبادی11لاکھ کے قریب ہے وہ ایک ہی ضلع ہے خضدار تقریباً نو دس لاکھ کی آبادی ہے وہاں بھی ایک ضلع ہے پنجگور ہم سے زیاد ہ ہے پشین اسی طرح ہے صرف اس مقصد کیلئے ڈی سی ،ایس پی اپنا ہو اور ابھی مشترکہ ہے جہاں جام کمال خان بھی اور وہ بھی اسی ضلع سے ایم پی اے ہیں اور مشترکہ ڈی سی ایس پی اور دیگر ضلعی افسران ہیں اگر اس ارادے سے نیا ڈسٹرکٹ بنانے کا مقصد ہے تو ہم اسکی بھر پور مخالفت کرینگے اور ہم نہیں چاہتے کہ آپ صرف اپنی اجارہ داری کیلئے نیا ضلع بنائیں اورا س پر اپنا قبضہ رکھیں جام کمال خان نے سردار محمد صالح بھوتانی کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ سردار بھوتانی نے اپنے انٹرویو میں ایک غیر مناسب بات کہی ہے کہ جام کمال سمجھتے ہیں کہ ابھی بھی ریاست کا دور ہے الحمد اللہ ہم اس سوچ کے لوگ نہیں ہیں اور ہم نے اپنے موقف کو زندگی بھر صاف اور سید ھا رکھا ہے اور نہ کبھی ریاست کو بلیک میل کیا اور نہ ہی ایسی سوچ رکھتے ہیں البتہ اگر آپ کو ریاستی نظام ڈکٹیٹر شپ دیکھنی ہے تو یونین کونسل ا±مید آباد جائیں دریجی میں ڈکٹیٹر شپ نظر آئے گی جبکہ اسکے برعکس لسبیلہ کے دیگر علاقوں میں ایسی کوئی صورتحال نہیں ملے گی ہم نے ہمیشہ پ±ر امن اور سیاسی ماحول رکھا ہو اہے ہمارے پاس لوگوں نے ہماری مخالفت کی ہے پورے لسبیلہ میں کوئی بھی کہیں جاسکتا ہے لیکن آپ دریجی جاکر دکھائیں دریجی کے مقامی لوگوں کی زندگیاں مفلوج ہیں لیکن انشاءاللہ اب یہ دن دور نہیں ہے کہ آپ اپنی سیاست ایک اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلدار تک محدود کر کے بیٹھے ہوئے ہیں اور جس دن دریجی کے لوگوں کو موقع ملا اور انصاف والا موقع ملا تو سب دیکھ لیں گے انھوں نے کہاکہ انہیں ریاست کے حوالے سے انہیں یہ شکوہ ضرور ہے کہ ریاستی جتنے بھی ادارے اور بڑے لوگ ہیں انہیں ضرور دیکھنا چاہئے کہ ہم پاکستان کے اندر خاص طور پر بلوچستان کے لوگوں کو کسطرح مفلوج رکھ سکتے ہیں کہ لوگ اپنی مرضی سے زمینداری نہ کر سکیں کوئی مائن اونر ہے تو وہ اپنی مائن نہیں چلا سکتا ہے شکار گاہیں اتنی بن چکی ہیں کہ آٹھ آٹھ نونو ڈیم شکار گاہوں کے جانوروں کیلئے مختص ہیں جہاں پر باہر سے آکر 30/30ہزار ڈالر ز کے عوض ایک جانور کا شکار کرتے ہیں سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہاکہ ہم نے ہر وقت کوشش کی ہے کہ مفاہمت کی سیاست کریں اور درمیان کا راستہ نکالا جائے لیکن اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے اپنا سیدھا موقف اپنایا ہے ہم نے بھی اب اپنے موقف کو اسی سمت میں لے جانا ہوگا اور لسبیلہ کو ایک ضلع کی وجہ سے نقصان کی طرف لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ہم اسکی بھر پور مخالفت کرینگے .

.

.

متعلقہ خبریں