پیکا آرڈیننس کیخلاف صحافیوں کا بلوچستان اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ

کوئٹہ(قدرت روزنامہ)وفاقی حکومت کی جانب سے پیکا آرڈیننس جاری کرنے کے خلاف صحافیوں نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے احتجاجا ً واک آؤٹ کیا اپوزیشن ارکان کی صحافیوں کے احتجاج کی حمایت، بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابرموسیٰ خیل کی صدارت میں شروع ہوا، اجلاس کے آغاز پر وفاقی حکومت کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے اجراء کے خلاف بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی کال پر صحافیوں نے احتجاجا اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کیا ا س موقع پر پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے صحافیوں کے احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے کہا ایف آئی اے کے ذریعے صحافیوں سمیت تمام طبقات کی زبان بند ی کی جارہی ہے ایف آئی اے کو پیکا آرڈیننس کے تحت اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی کو بھی شکایت پر حراست میں لے سکتے ہیں اور انہیں چھ ماہ تک ضمانت بھی نہیں مل سکتی انہوں نے کہا کہ دنیا آزادی اظہار رائے کی جانب گامزن ہے لیکن یہاں عوام کے بنیادی حقوق سلب کئے جارہے ہیں آئین کے آرٹیکل 8سے 28تک بنیادی حقو ق تعین کئے ہیں جن میں آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت بھی شامل ہیں لیکن سینیٹ کے اجلاس کے ایک دن بعد اور قومی اسمبلی کے اجلاس سے دو دن پہلے حکومت آرڈیننس لائی ہے جو کالا قانون ہے ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری بن گیا ہے پشتونخواء ملی عوامی پارٹی صحافتی تنظیموں کے احتجاج اور موقف کی تائید کرتی ہے لیکن یہاں احتجاج کریں تو ایف آئی آر درج کی جاتی ہیں اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل نے ارکان اسمبلی ثناء بلوچ، نصر اللہ اور قادر علی نائل کو صحافیوں سے مذاکرات کر کے انہیں ایوان میں واپس لانے کے لئے بھیجا ارکان اسمبلی نے صحافیوں سے مذاکرات کئے جس کے بعد صحافی اجلاس کا بائیکاٹ ختم کر کے دوبارہ ایوان میں کوریج کے لئے آئے،بعدازاں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثنا بلوچ نے کہا کہ صحافی برداری سے مذاکرات کئے ہیں جس کے بعد انہوں نے احتجاج ختم کیا میڈیا ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتاہے اسکے بغیر بہتری لانا ممکن نہیں ہے صحافی نہ صرف معاشرے کو باخبر رکھتے ہیں بلکہ درست سمت کے تعین میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ میڈیا کی زبان بندی کے لئے آرڈیننس لایا گیا ہے آرڈیننس کے اجراء ایمرجنسی یا جنگی حالات میں کیا جاتا ہے مگر صدر پاکستان آرڈیننس جاری کر کر کے ایوان صدر کی وقعت گنوا دی ہے آرڈیننس کے اجراء سے قبل صحافیوں کو بھی اعتمادمیں نہیں لیا گیا پیکا آرڈیننس بنیادی حقوق سے متصادم ہے سوشل میڈیا پر ہمیں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہم نے ہمیشہ برداشت کا رویہ اپنایا ہے انہوں نے کہا کہ پیکا آرڈیننس آنے بعد صحافی نے خبر چھاپی تو ایف آئی اے اسے ٹارچر کر ے گا ایسے قوانین 16ویں صدی میں بھی نہیں آئے تھے بلوچستان اسمبلی میں قرار داد پیش کرتے ہیں کہ تمام ارکان اسمبلی پیکا آرڈیننس کو مسترد کرتے ہیں اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اصغر خان اچکزئی نے تجویز دی کہ انکی صحافی اطہر متین کے قتل کے خلاف لائی گئی قرار داد کے ساتھ ثناء بلوچ کی مجوزہ قرار داد کو کلپ کردیا جائے تاہم ڈپٹی اسپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل نے کہا کہ فی الوقت ایک اور قرار داد پر بحث جاری ہے اس دوران اسے قرار داد کے ساتھ کلپ نہیں کیا جاسکتا بعد میں علیحدہ قرار داد لانے کی اجازت طلب کی جاسکتی ہے

. .

متعلقہ خبریں