” کابینہ میں کچھ لوگ خود کو دولت مند سمجھتے ہیں اور۔۔“ پی ٹی آئی کے سینئر وزیر ندیم افضل چن کھل کر بول پڑے
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ندیم افضل چن نے کہاہے کہ تاریخ میں مجبور نہیں بلکہ بہادر لوگوں کو یاد رکھا جاتاہے ، عمران خان بہادری اور اچھے فیصلے کر جائیں گے تو تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے وورنہ دور گزر جارئے گا اور کہا جائے گا کہ یہ مجبوری تھی وہ مجبوری تھی ، مجبوروں کو یاد نہیں رکھا جاتا . اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے ساتھ ہی لڑیں گے ؟ کے سوال پر پی ٹی آئی رہنما نے جواب دیا کہ یہ ابھی وقت بتائے گا .
نجی ٹی وی ” اے آر وائے نیوز “ کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق ترجمان ندیم افضل چن نے کہاہے کہ ناراضگی والی بات نہیں لیکن میں پیچھے دوڑنے کا قائل نہیں ہوں ، پی ٹی آئی کے پرانے لوگ میرے ساتھ مطمئن ہیں ، کابینہ میں خود کو کچھ لوگ دولت مند سمجھتے ہیں، جب رائے دیں تو ان کو ناگوار گزرتی تھی ، وزیراعظم کے زیادہ قریب وہ ہیں ، اب اس لیے میں ذرا سمجھتاہوں کہ ہماری وجہ سے ان کے درمیان ایسی بات نہیں ہونی چاہیے ، کابینہ اور پارٹی میں کھل کر رائے دیتاتھا ، مجھے کوئی کسی کا ڈر نہیں ہے .
ندیم افض چن کا کہناتھا کہ جس قسم کا ہم ذہن رکھتے ہیں شائد وزیراعظم کی ضرورت کے مطابق نہ ہو ، میں سمجھتاہوں کہ سیاسی کلاس میں مفاہمت ہونی چاہیے ، صرف سیاسی کلاس پر الزامات نہیں لگنے چاہیے ، جب احتساب کی بات کریں تو صرف سیاسی مخالفین مناسب نہیں اس میں یبوروکریٹس ، صحافت ، بزنس ٹائیکون بھی ہوتے ہیں جو اصل ملک کو پیچھے بیٹھ کر چلا رہے ہوتے ہیں ان کے نام بھی ہونے چاہیے، یہ میرا ایک مینوفیکچرنگ فالٹ ہے ، میں یہ وزیراعظم کو کہتا ہوں .
ان کا کہناتھا کہ مختار والی لیک ہوئی تھی تو وزیراعظم نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا تھا کہ ندیم یہ تم نے کیا کیاہے ، ، شہزاد اکبر کے کمیشن یا احتساب کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتاتھا ، اس پر عمران خان نے ایک دو مرتبہ ناگواری کاا ظہار کرتا تھا ، پی ٹی آئی کی کابینہ میں رابطوں کا فقدان ہے ، اس میں بیوروکریٹ بھی آ کر کھیلتا ہے ، اسی میں ٹیکنوکریٹ بھی آ کر کھیلتاہے ، سرمایہ دار بھی پالیسی میکنگ میں شامل ہو گیا ہے .
ندیم افضل چن کا کہناتھا کہ پچ سیاستدانوں کی ہے ، ووٹ لوگ سیاستدانوں کو دیتے ہیں، پارلیمانی نظام میں سیاستدانوں کی اہمیت ہوتی ہے ، لیکن راہ گزر آ جاتے ہیں پھر جنگ تو ہوتی ہے ، کچھ لو گ ہوتے ہیں جن کو قیادت کے دائیں بائیں رہنے او راچھی گفتگو کرنے کا آرٹ آتاہے ، شائد میرے جیسے بندہ جو کم تعلیم یافتہ اس نے کوئی چیز بیان کرنی ہو تو سیدھی بات کرے گا . مجھے شروع شروع میں پبلک فیئر ونگز کا کہا گیا ، تو اس پر میں نے کہا کہ ایم پی اے اور ایم این اے کو ساتھ لاتے ہیں ،لیکن پی ایم ہاوس کی بیوروکریسی نے پبلک افیئر ونگ سیاسی بندے کے نیچے نہیں چلنے دیا ، تو انہوں نے مجھے پہلے مہینے ہی منع کر دیا کہ آپ اس طرح میٹنگ نہ بلائیں .
پی ٹی آئی رہنما کا کہناتھا کہ وزیراعظم سے فون میسجز پر بات ہوتی رہتی ہے ، میں عہدہ نہیں لینا چاہتا ،میں ڈلیور نہیں کر سکوں گا ،یا تو ایسے اختیارات ہوں کہ آپ وہاں بیٹھ کر ڈیلیور کریں اور رائے دے سکیں، اس وقت جو ماڈل چل رہاہے اس میں ہمارے جیسے لوگ فٹ نہیں ہوتے ، اچھے اچھے قابل اور اچھی انگریز اور سلجھے ہوئے لوگ فٹ ہوتے ہیں ، ہم اتنے سلجھے ہوئے نہیں ہیں . مجھے انگریزی بولنی نہیں آتی ہے ، سیاسی ورکر والی انگریزی مجھے آتی ہے ، اوپر والے درباروں میں بیٹھ کر بولنے والی انگریزی نہیں آتی ،
ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ انڈسٹری منسٹری بہت اچھی ہے ، ٹاپ ٹین میں شامل ہے ، دوسری طر ف اس ملک میں کھاد بھی شارٹ ہے ، 37 بلین سبسڈی سرکاری خزانہ سے انڈسٹری کو دے رہے ہیں ، لیکن کسان کو ڈے اے پی بھی 9 ہزار پر چلی گئی اور یوریا بھی مہنگی ہے . سارے وزیراعظم ایک جیسے ہوتے ہیں کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کی مجبوریاں ہی ایک جیسی ہوتی ہے .
. .