کم عمرمیں تعلیم شروع کرنا بہتر ہے یا نسبتاً زیادہ عمرمیں۔۔۔!!!بچوں کوکس عمر میں سکول داخل کروانا چاہیے ؟

لاہور(قدرت روزنامہ)میں سات سال کی تھی جب میں نے پڑھنا سیکھنا شروع کیا جیسا کہ میرے سکول میں معمول تھا۔ میری بیٹی ایک معیاری انگریزی سکول میں پڑھتی ہے جہاں تعلیم چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔اس عمر میں اپنی بچی کو حروف کو یاد کرتے ہوئے اور الفاظ کو سنتے ہوئے دیکھ کر

مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہماری تعلیم کا تجربہ کتنا مختلف تھا۔ہم اس عمر میں درختوں پر چڑھنا اور چھلانگ لگانا سیکھ رہے تھے۔ میں سوچتی ہوں کہ کیا اسے ایک ایسا آغاز مل رہا ہے جو اسے زندگی بھر کام آنے والے فوائد فراہم کرے گا؟ یا کیا اس پر ممکنہ طور پر مناسب مقدار سے زیادہ تناؤ اور دباؤ ہے، اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب اسے اپنی آزادی اور بے فکری کا مزا لینا چاہیے؟یا پھر کیا میں یوں ہی بہت زیادہ پریشان ہو رہا ہوں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کس عمر میں پڑھنا لکھنا شروع کرتے ہیں؟اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان اپنی تمام تر شکلوں میں، خواہ وہ لکھنا، بولنا، بلند آواز سے پڑھنا یا گانا ہو ہماری ابتدائی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔بچے اس زبان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو رحم مادر میں سنتے ہیں۔ والدین کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی بلند آواز سے پڑھ کر سنائیں۔شواہد سے پتا چلتا ہے کہ بچوں سے کتنا کم یا کتنا زیادہ بات کی جاتی ہے اس بات کا اس کی مستقبل کی تعلیمی کامیابیوں پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کتابیں اس بھرپور لسانی تجربات کا خاص طور پر اہم پہلو ہیں، کیونکہ تحریری زبان میں اکثر روزمرہ کی بولی جانے والی زبان سے زیادہ وسیع اور زیادہ باریک اور مفصل الفاظ شامل ہوتے ہیں۔اس کے نتیجے میں بچوں کو اپنے اظہار کی حد اور گہرائی میں اضافہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

چونکہ کسی بچے کی زبان کے ابتدائی تجربے کو ان کی بعد کی کامیابی کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، اس لیے پری سکول میں رسمی تعلیم شروع ہونے سے پہلے ہی بچوں کو خواندگی کی بنیادی مہارتیں سکھانا شروع کر دینا معمول بن گیا ہے۔جب بچے سکول شروع کرتے ہیں تو پڑھنے پر ہمیشہ بڑی توجہ دی جاتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کا ہدف کہ تمام بچے پڑھنا لکھنا سیکھیں اور زیادہ دباؤ کا باعث بن گیا ہے کیونکہ محققین نے متنبہ کیا ہے کہ وبائی بیماری نے امیر اور غریب خاندانوں کے درمیان کامیابیوں کے فرق کو بڑھا دیا ہے، جس سے تعلیمی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔بہت سے ممالک میں رسمی تعلیم چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے حق میں اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جلد شروع کرنے سے بچوں کو سیکھنے اور سبقت حاصل کرنے کے لیے زیادہ وقت ملتا ہے۔تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ’تعلیمی ہتھیار کی دوڑ‘ شروع ہو جاتی ہے جس کے لیے اپنے بچے کو ابتدائی سبقت دلانے کے لیے چار سال سے بھی کم عمر میں پڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور بعص لوگ تو کوچنگ اور پرائیوٹ ٹیوشن بھی دلوانے لگتے ہیں۔اس کا موازنہ کئی دہائیوں پہلے کی زیادہ کھیل پر مبنی ابتدائی تعلیم سے کریں تو آپ کو پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی نظر آئے گی کہ ہمارے بچے کو زندگی میں دوسروں کے مقابلے میں آگے رہنے کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے اس کے متعلق مختلف خیالات رائج ہیں۔

امریکہ میں پالیسی تبدیلیوں کے ساتھ اس میں تیز آئی جیسے کہ سنہ 2001 کے ‘کوئی بچہ پیچھے نہ رہ جائے’ ایکٹ کے تحت تعلیمی کارکردگی اور پیشرفت کی پیمائش کو معیاری بنایا گیا۔برطانیہ میں بچوں کا امتحان ان کے سکول کے دوسرے سال (عمر 5-6) میں لیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ پڑھنے کے متوقع معیار تک پہنچ رہے ہیں کہ نہیں۔ناقدین خبردار کرتے ہیں کہ ابتدائی درجوں میں اس طرح کے ٹیسٹ سے بچوں کے پڑھنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ کم عمری کے ٹیسٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے ان لوگوں کی شناخت میں مدد ملتی ہے جنھیں اضافی مدد کی ضرورت ہے۔بہرحال بہت سے مطالعات میں بات سامنے آئی ہے کہ ابتدا میں حد سے زیادہ تعلیمی ماحول سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔سنہ 2015 کی ایک امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کنڈرگارٹن میں بچوں کو کیا حاصل کرنا چاہیے اس کے بارے میں معاشرے کی توقعات بدل گئی ہیں، جس کی وجہ سے ‘کلاس روم میں نامناسب طریقے’ جیسے کھیل کود پر مبنی سیکھنے کے عمل میں کمی واقع ہو رہی ہے۔بچے کیسے سیکھتے ہیں اور اس کے لیے ماحول کا معیار بہت اہم ہے۔ برطانیہ میں یونیورسٹی کالج آف لندن میں پرائمری ایجوکیشن کے پروفیسر ڈومینک وائسے کہتے ہیں: ‘چھوٹے بچوں کا پڑھنا سیکھنا پرائمری تعلیم کی سب سے اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ یہ زندگی میں ترقی کرنے والے بچوں کے لیے بنیادی چیز ہے۔’انھوں نے اپنی ہی یونیورسٹی میں سماجیات

کے پروفیسر ایلس بریڈبری کے ساتھ ایک تحقیق شائع کی ہے جس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جس طرح سے ہم بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ واقعی اہمیت رکھتا ہے، یعنی پڑھانے کا طریقہ اہمیت رکھتا ہے۔سنہ 2022 کی ایک رپورٹ میں وہ بتاتے ہیں کہ انگریزی سکول کے نظام میں صوتیات پر شدید توجہ یعنی کہ کسی لفظ کس طرح لکھا اور پڑھا جائے کچھ بچوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔بریڈبری کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ‘ابتدائی سالوں کی تعلیم’ کے نتیجے میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ رسمی تعلیم حاصل ہوئی ہے۔ لیکن ابتدائی طور پر حاصل کی گئی تعلیم کی جانچ کا کسی کتاب کو پڑھنے یا اس میں دلچسپی لینے یا دوسرے بامعنی متون کو پڑھنے سے کچھ زیادہ لینا دینا نہیں ہو سکتا ہے۔مثال کے طور پر، ٹیسٹ میں بچوں سے بے معنی الفاظ کی ‘آواز نکالنے’ اور فضول الفاظ کے ہجے کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں، تاکہ انھیں صرف اندازہ لگانے یا مانوس الفاظ کو پہچاننے سے روکا جا سکے۔ چونکہ فضول الفاظ معنی خیز زبان نہیں ہیں، اس لیے بچوں کے لیے یہ کام مشکل اور پریشان کن ہو سکتا ہے۔بریڈبری نے پایا کہ سمجھنے کی ان مہارتوں کو حاصل کرنے کے دباؤ، اور پڑھنے کا امتحان پاس کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ تین سال کے بچے پہلے سے ہی صوتیات کا شکار ہو رہے ہیں۔بریڈبری کا کہنا ہے کہ ‘یہ معنی خیز ہونے پر ہی ختم نہیں ہوتا، یہ سیاق و سباق کو سمجھنے

کے بجائے یاد کرنے پر ختم ہوتا ہے۔’ وہ اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ استعمال ہونے والی کتابیں خاص طور پر دلکش نہیں ہیں۔نہ ہی وائسے اور نہ ہی بریڈبری واقعتا دیر سے سیکھنے کی وکالت کرتے ہیں بلکہ وہ ہمیں بچوں کو پڑھانے یا حروف شناسی کے طریقے پر نظر ثانی کرنے کی بات کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کہانیوں کی کتابوں، نغموں اور نظموں کا استعمال کرتے ہوئے ان کی ترجیہ الفاظ میں دلچسپی اور ان سے واقفیت پیدا کرنے پر ہونی چاہیے۔اس اس کے ساتھ ہی ان کے الفاظ کے زخیرے میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔اس خیال کی تائید ان مطالعات سے ہوتی ہے جن میں یہ ظاہر ہوا ہے کہ پری سکول کے تعلیمی فوائد بعد میں ختم ہو جاتے ہیں۔ کئی تازہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ جو بچے پری سکولوں میں شدت کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں ان میں بعد کے درجات میں ان لوگوں کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیمی قابلیت نہیں ہوتی جو اس طرح کے پری اسکولوں میں نہیں جاتے تھے۔تاہم ابتدائی تعلیم سماجی ترقی پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے – جس کے نتیجے میں سکول اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ جرائم کی کم شرح سے وابستہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔مختصراً، پری سکول میں جانے سے زندگی میں بعد کی کامیابیوں پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ تعلیمی مہارتوں پر بھی مثبت اثرات ہی مرتب ہوں۔بہت زیادہ تعلیمی دباؤ بھی طویل مدت میں مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ جنوری

Recent Posts

ایک منتخب وزیراعلی کو لاپتہ کرنا دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ مشیر کے پی

پشاور(قدرت روزنامہ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر…

5 mins ago

اداکارہ عظمیٰ حسن لندن میں لٹ گئیں

لندن (قدرت روزنامہ) معروف اداکارہ عظمیٰ حسن کو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں لوٹ لیا…

25 mins ago

مریم نواز کا اسلام آباد میں کانسٹیبل کی شہادت پر گہرے دکھ کا اظہار

لاہور(قدرت روزنامہ) وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پی ٹی آئی احتجاج میں شدید…

33 mins ago

جہلم: تقریب میں مضرصحت کھانا کھانے سے 2 سگے بھائی جاں بحق ،مزید 6 افراد کی حالت تشویشناک

جہلم (قدرت روزنامہ )جہلم میں فیملی تقریب کے دوران کھانا کھانے سے 2 بچے انتقال…

46 mins ago

بانی پی ٹی آئی کی بہنوں اور اسد قیصر کے بھائی کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)بانی پی ٹی آئی کی بہنوں اور اسد قیصر کے بھائی کا ایک…

50 mins ago

عمران اشرف کی سابقہ اہلیہ کرن اشفاق کے ہاں بیٹی کی پیدائش

  کراچی(قدرت روزنامہ) پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار و میزبان عمران اشرف کی سابقہ…

1 hour ago