کوئٹہ میں پینے کے پانی کی کمی شہریوں کو مشکلات

رپورٹ: محمد ناصر شاہوانی

کوئٹہ سے تلعق رکھنے محمد اضغر ہر روز ریڑھی میں پانی لاد کر گھر لیجاتے ہیں کیونکہ انکے گھر میں پینے کے پانی کا . نل تو موجود ہے لیکن اس میں عصہ .

دراز سے پانی نہیں آتا .

اضغر نے بتایا" مجھے تمام کام چھوڑ گھر کو پانی لے جانا ہوتا ہے . گھر میں خواتین کو پانی کی کمی . کے بعث مشکلات کا سامنا رہتا"

اضغر ہر دوسرے روز پینے کا پانی قریبی ٹیوب ویل سے بھرنے پہ مجبور ہیں .

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تیزی سے بڑھتی آبادی کے باعث پینے کے صاف پانی کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے . کوئٹہ کے متعدد علاقوں میں گزشتہ دو سال سے واسا (واٹر اینڈ سینی ٹیشن اتھارٹی) کی جانب سے پانی کی سپلائی بند ہے اور عوام ٹینکر مافیہ کے رحم و کرم پر ہیں .

کوئٹہ میں پانی کا ایک ٹینکر 800 سے 1000 روپے میں ملتا ہے، جو زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ دن کی ضرورت پوری کرتا ہے اور اوسط درجے کے گھرانوں کے لیے اتنا مہنگا پانی خریدنا ممکن نہیں . بروری اور اطراف کے چند علاقوں کے علاوہ باقی تمام جگہ واسا نے پانی کی سپلائی کئی سالوں سے بند کی ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ سب ٹینکر مافیا کے ساتھ باقاعدہ ملی بھگت کے ساتھ کیا جا رہا ہے .

کیونکہ عوام کے شدید احتجاج کے باوجود واسا یا صوبائی حکومت کی طرف سے اس مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں گئی . دوسری جانب ٹینکر مافیا اپنا کاروبار چلانے کے لیے پمپوں کے ذریعے زمین میں بہت گہرائی سے پانی کھینچتے ہیں، جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور آس پاس کی زرخیز زمین تیزی سے بنجر ہو رہی ہے .

واسا کوئٹہ میں کئی برس تک خدمات سر انجام دینے والے سید لیاقت علی کے مطابق حکومت ِ بلوچستان کوئٹہ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق اربن پلاننگ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے یہاں پانی کا بحران شدید تر ہو تا جا رہا ہے . بلوچستان قدرتی طور پر ایک ''ڈراٹ پرون‘‘ ایریا ہے، جہاں پانی کی قلت کوئی نئی بات نہیں .

برطانوی راج میں تعمیر ہونے والی ہنہ جھیل اور اس سے منسلک آب پا شی کا نظام آج بھی ایک بڑے علاقے کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ٹینکر مافیہ نے ہنہ جھیل کو بھی نہیں بخشا اور دو برس قبل پمپوں سے پانی نکالنے کے باعث یہ جھیل مکمل طور پر خشک ہو گئی تھی . اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ نا صرف پرانے کاریز سسٹم کو بحال کیا جائے بلکہ جلد از جلد نئے ڈیم اور پانی کے ذخائر تعمیر کیے جائیں . اس کے ساتھ ہی غیر قانونی بورنگ کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے .

. .

متعلقہ خبریں