اسلام آباد (قدرت روزنامہ) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء اور ترجمانوں کو اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف بیان دینے سے روک دیا ہے،اگرچہ یہ وقت کا تقاضا ہے پھر بھی اسے خوش آئند قررا دیا جا رہا ہے . جنگ اخبار کی رپورٹ کے مطابق 28مارچ کے دن عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہونی ہے، ڈراپ سین کے بعد کیا ہو گا یہ کہنا ابھی مشکل ہے،وزیر اطلاعات کے مطابق اپوزیشن کے ارکان جن میں مبینہ طور پر حکومت جماعت کے منحرف ارکان اور شاید حکومتی اتحادی بھی شامل ہوں گے ، جب عدم اعتماد کی تحریک میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس جائیں گے تو انہیں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر تحریک انصاف کے کارکنوں کے بیچ سے گزرنا ہو گا اور ایسی ہی صورتحال کا سامنا انہیں واپسی میں بھی کرنا پڑے گا، گو کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاور شو ووٹنگ سے ایک دن قبل 27 مارچ کو ہو گا لیکن اپوزیشن کے خدشات اور تحفظات اس حوالے سے موجود ہیں جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی جانب سے اس صورتحال سے ’ عہدہ برآ‘ ہونے پر مشاورت کی اطلاع ہے .
مسلم لیگ ن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے 28 مارچ کو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور کارکنوں کو بھی تیار رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں . احتجاج اور سیاسی مزاحمت کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی جماعت خاص حوالہ رکھتی ہے، وہ کے پی کے اور راولپنڈی اسلام آباد سے بڑی تعداد میں اپنے اطاعت گزاروں کو اسلام آباد پہنچنے کا حکم دے سکتے ہیں جو لوگ ہجوم کی تفسیات جانتے ہیں وہ مسلسل خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ اس موقع پر کوئی نعرہ بھی بارود میں چنگاری کا کام کر سکتا ہے .
جے یو آئی کے مرکزی ترجمان اسلم غوری کا کہنا ہے کہ ہم ہر صورت میں 172 سے زیادہ ارکان لے کر پارلیمنٹ ہاؤس جائیں گے اگر انہیں طاقت کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی تو تصادم کی تمام ذمہ داری حکومت پر ہو گی . مولانا فضل الرحمن نے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام کارکنوں کو ہدایت جاری کر دیں .