بلوچستان کی جان لیوا سڑکیں۔

رپورٹ : محمد ناصر شاہوانی


میرے ساتھ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر روڈ حادثہ پیش آیا اور میں نےمدد کےلیے سڑک پر کھڑے ہوکر لوگوں کو رکنےکا اشارہ کیا مگر کافی دیر تک کسی نے میری مدد نہیں کی .

نجیب یوسف زہری کہتے ہیں کہ میری والدہ اور بہن سڑک پہ زخمی پڑے تھے اورمیں بھی زخموں کی وجہ سے شدید تکلیف میں تھا .

اس حادثے می نجیب کی کمر کو چوٹ پہنچی .

نجیب بتاتے ہیں" میں نے دیکھا کہ ویگن کو حادثہ ہوا اوراس میں بیٹھے اکثر لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے . ویگن میں موجودایک خاتون جو خود زخمی تھیں اور ان کی گود میں جو بچہ تھا وہ بھی زخمی تھا . انہوں نے اسے بچانے کی التجا کی . اس واقعے نے مجھے اس حوالےسے جدوجہد پر مجبور کیا .

 

نجیب نے ٹریفک کے بڑھتے حادثات کے باعث سماجی ورکروں،سیاستدانوں اور دیگر لوگوں سے رابطہ کرکے آواز بلند کرنے کی درخواست کی.

نجیب نے اس مسئلے سے آگاہی کے لیے کراچی سے کوئٹہ تک لانگ مارچ شروع کیا . وہ 334 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے وڈھ پہنچے تھے کہ اس دوران کرونا کی وبا آگئی کے بعد لانگ مارچ ملتوی کرنا پڑا .

بلوچستان کے خونی سڑکوں پر روڈ ایکسیڈنٹ معمول کی بات ہے .

ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ دو روحیہ سڑکیں نہ ہونا اور حکومتی غفلت ہے .
بڑی شاہراہوں کی قومی اوسط 15 میٹر چوڑائی کے نسبت بلوچستان میں بڑی سڑکیں صرف 7.5 میٹر چوڑی ہیں .

چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹی اور بڑی گاڑیاں سڑکوں پر نکلنے کے قابل تک نہیں ہیں . ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف کوئٹہ ٹو کراچی روزانہ 8 ہزار کے قریب گاڑیاں روزانہ گزرتی ہیں، ان میں مال بردار گاڑیوں سے لے کر مسافر کوچوں تک ایسے ایسے گاڑیاں بھی شامل ہیں جو واضح طور پر خستہ حال ہیں .

تیز رفتار اور ڈرائیوروں کی لاپرواہی بھی ٹریفک حادثات کی ایک اہم وجہ بتائی جاتی ہیں . چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرنے والے اکثر اوقات بڑی گاڑیوں کے ڈرائیور سے نالا نظر آتے ہیں .

موٹر ویز کے صوبائی پولیس چیف کے مطابق، پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں، ہر سال 6000 سے 8000 کے درمیان افراد سنگل لین سڑکوں پر حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں جنہیں 'قاتل شاہراہوں' کا نام دیا جاتا ہے .

قلات کا رہائشی نظر محمد ہر دوسرے روز کوئٹہ سے کراچی چھوٹی گاڑی میں مسافر لے جاتے ہیں، انکا کا کہنا ہیں کہ مسافر کوچز کے ڈرائیور جہاں رات کے وقت لائیٹ تیز کر دیتے ہیں وہی پر کراسنگ کے دوران گاڑی بھی سائڈ پر نہیں کرتے جو ڈرائیونگ کے بنیادی اصول کے نہ صرف خلاف ہیں بلکہ اکثر اوقات ان کے اس رویہ کی وجہ سے بڑا حادثہ رونما ہوتا ہیں . نظر محمد مزید کہتے ہیں کہ حکومت کی بے حسی اور لا قانونیت کی وجہ سے بلوچستان میں آئے روز نوجوان ٹریفک حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں .

پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق، گزشتہ ایک دہائی کے دوران صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد 2,238 کے نسبت میں ٹریفک حادثات میں تقریباً 4,000 افراد ہلاک ہوئے ہیں . تاہم مقامی میڈیا اور آزاد مانیٹر نے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 8,000 کے لگ بھگ بتائی جاتی ہیں .

813 کلومیٹر کوئٹہ-کراچی ہائی وے جسے RCD ہائی وے بھی کہا جاتا ہیں صوبے میں مہلک حادثات کا ہمیشہ سے مرکز رہا ہیں، ماضی میں اس روٹ کو نیٹو سپلائی کے لیے بھی استعمال کیا گیا تھا . یہ سنگل سڑک پاکستان کے دو کمرشل شہر افغانستان کے بارڈر کے ساتھ واقع چمن اور کراچی کو بھی جوڑ لیتا ہیں .

خضدار کے رہائشی اعجاز زیری نے اپنا جواں سال بیٹا عرفان زہری بھی اس خوانی شاہراہ کی نظر ہوگیا، انکا کہنا تھا کہ اپنے بیٹے کو صبح صحیح سلامت گھر سے کراچی کے لیے رخصت کیا مگر چند گھنٹوں بعد بیٹے کی لاش گھر آئیں . اعجاز زیری مزید کہتے ہیں کہ عرفان گھر کا واحد کفیل تھا، کراچی میں مزدوری کرتا تھا . ہلاکت کے بعد انکی ماں کی بنائی چلی گئی اور وہ ہر وقت اپنے بیٹے کو یاد کر تی ہیں . اعجاز زیری اس المناک واقعہ کی ذمہ دار صوبائی حکومت اور ڈرائیوروں کی غفلت قرار دیتا ہیں .

صوبہ بلوچستان میں سڑکوں اور شاہراہوں کا اس وقت 40,000 کلومیٹر جال ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی ڈبل لین نہیں ہیں .

موجودہ دور میں معاشی ترقی کے لیے کشادہ سڑکیں ایک اہم جز ہیں، آسان اور محفوظ آمد ورفت سے نہ صرف کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوسکتا بلکہ ہیں بے روزگاری کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی .

. .

متعلقہ خبریں