جوبائیڈن کا عمران خان کو فون نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے افغانستان کے معاملے پر امریکی صدر کی جانب سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو فون نہ کرنے کا معاملہ امریکی حکام کے سامنے اٹھا دیا ہے . نجی ٹی وی وی کی رپورٹ کےمطابق واشنگٹن میں امریکی سفارتخانے میں ایک امریکی میگزین کو دئیے گئے انٹرویو میں معید یوسف نے کہا کہ افغان معاملے پر پاکستان جیسے اہم ملک کے وزیراعظم کو امریکی صدر کا فون نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے حالانکہ ہر بار کہاجاتا ہے کہ فون کیا جائے گا، اس کی کوئی تکنیکی وجہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، سچ تو یہ ہے کہ اب ان کا اعتبار نہیں، اگر فون کال یا سیکیورٹی تعلقات کوئی رعایت ہیں تو پاکستان کے پاس بھی آپشنز موجود ہیں .

قبل ازیں قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن ہماری کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے ، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے جو کہ تشویشناک ہے اور اسے روکنے کی ضرورت ہے، افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان ہمار ے لیے خطرہ تھی ، افغان مسئلے پر سیاسی مفاہمت اٹھایا جانے والا ایک بڑاقدم ہو سکتا ہے جس سے دبائو میں کمی میں مدد ملے گی، پاکستان اور امریکہ کو موجودہ صورتحال میں زیادہ ملکر کام کرنا ہو گا کبونکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سیکیورٹی خلاء پیدا ہو رہا ہے ،افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال پر تشویش ہے اسے روکنے کی ضرورت ہے ، اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ ملاقات مثبت رہی ، پاکستان اور امریکہ کے علاوہ خطے میں کوئی اور ملک مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لئے کام نہیں کر سکتا . اتوار کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ان کے دورے کا مقصد 23مئی کو ان کے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے ساتھ ہونے والی بات چیت پر پیش رفت کا جائزہ لینا تھا ، جو ان کا کسی بھی اعلیٰ سطح کے امریکی سے پہلا باضابطہ تبادلہ خیال تھا . انہوں نے امریکہ کے سرکاری دورے کے ایجنڈے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پر بات چیت فوری اور اہم نوعیت کا معاملہ ہے ، لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اور امریکہ موسمیاتی تبدیلی سے اور کووڈ ، تجارت اور سرمایہ کاری سمیت متعدد شعبہ جات میں کام کریں گے . مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ جنیوا میں ہونے والی ملاقات میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جولائی کے آخر میں اس پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا کیونکہ اس وقت سے اس پر دونوں اطراف کام کر رہی ہیں . انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں پاکستان اپنی حکمت عملی پر تفصیلی کام کررہا ہے . انہوں نے تصدیق کی کہ ان کی امریکی ہم منصب کے ساتھ ملاقات اہم مصروفیت تھی جہاں زیر غور آنے والی بہت سی چیزیں مثبت رہیں . انہوں نے کہاکہ خطے کے حالات میں ہونے والی تبدیلیوں کے لئے یہ ملاقات اہمیت کی حامل ہے ، جبکہ مستقبل کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنا ضروری تھا ہمیں آگے بڑھنے کے لئے مثبت جواب ملا . انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سیکیورٹی خلاء پیدا ہو رہاہے ان حالات میں پاکستان اور امریکہ کو موجودہ صورتحال میں زیادہ قریبی کام کی ضرورت ہے ، افغانستان میں عدم استحکام کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے علاوہ کوئی اور قوم مشترکہ خطرات پر کام نہیں کر سکتی . انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی تھی اور ہے جوکہ ایک سنجیدہ تشویش ہے اور اسے روکنے کی ضرورت ہے . انہوں نے کہاکہ افغانستان میں موجودہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) پاکستان کے لئے خطرہ ہے اور ایسے گروہ جو دنیا کے دیگر علاقوں میں جہاں امریکی مفادات ہیں انہیں نشانہ بناتے ہیں . انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک مشترکہ طور پر ایسے خطرات سے نمٹنے کے لئے کام کر سکتے ہیں . انہوں نے کہاکہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون پر مثبت ردعمل سامنے آیا ہے ، افغان مسئلے میں سیاسی مفاہمت ایک ایسا قدم ہے جس کے اٹھانے سے دبائو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے . انہوں نے کہاکہ ملاقات کے دوران تجارت اور سرمایہ کاری وغیرہ سمیت تکنیکی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ایسے امور جو پاکستانی مفاد میں ہیں ان پر تبادلہ خیال کیا گیا . انہوں نے کہاکہ ہم نے حال ہی میں امریکہ کی طرف سے عطیہ کی گئی کورونا ویکسین کی خوراکوں پر ان کا شکریہ ادا کیا جس سے دوطرفہ تعلقات کے لئے ہمارے عزم کا اعادہ ہوا . انہوں نے کہا کہ امریکی خصوصی صدارتی ایلچی برائے موسمیات جان کیری کی لندن میں وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی امین اسلم کے ساتھ ملاقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا . ہمارا ماڈل یہ ہے کہ ہر شعبے کا انچارج اپنا ایجنڈا لے اور اس عمل کے لئے اپنا ورک پلان بنائے ، ہم مسائل کے بارے میں پاکستان کے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے مستعد رہنا چاہتے ہیں کہ یہ کیسے آگے بڑھے گا . انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان مہاجرین کا مزید بوجھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی افغانوں کو ان کے علاقوں سے بے گھر ہونے کے حق میں ہے . ڈاکٹر معید نے کہا کہ پاکستان جو کچھ کر سکتا ہے کر رہاہے اور کرے گا لیکن افغان افواج کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے جبکہ امریکی قیادت سہولت فراہم کر سکتی ہے اور اسے اس عمل میں سیاسی قیادت کو شامل کرنا چاہئے . انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس افغانستان میں امن کی بحالی میں ناکامی کا کوئی انتخاب نہیں ہے ، تاہم یہ کہنا زیادہ اہم ہے کہ دنیا کا افغانستان کے لئے کیا معاشی منصوبہ ہے . انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور امریکہ اس شعبہ میں کام کر سکتے ہیں کیونکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو افغانستان تک وسعت دی جاسکتی ہے اور افغان خام مال کو برآمدی مصنوعات کے لئے استعمال کرنے کی غرض سے سرحد کے پاس مینوفیکچرنگ پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں جس سے افغاننوں کو فائدہ ہو . انہوں نے کہاکہ افغانستان میں ا من کے بغیر پاکستان وسط ایشیائی ممالک کو اپنی بندرگاہیں فراہم نہیں کرسکتا جو اس کے جیو اکنامک ویژن کا اہم جزو ہیں . انہوں نے کہاکہ ہم باہمی مفادات کے لئے امریکہ کے ساتھ شراکت دار رہنا چاہتے ہیں کیونکہ دونوں فریق ملک کر کام جاری رکھنے پر متفق ہیں . ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان کے خلاف تیسری سرزمین استعمال کی گئی اور اس میں ہمارا مشرقی ہمسایہ بھارت ملوث ہے ہم نے د نیا کے سامنے اس حوالے سے ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئر پیش کیا جس نے بھارتی مکرو عزائم اور پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کو بے نقاب کیا . انہوں نے کہاکہ امریکہ سمیت دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں لیکن بدقمستی سے دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہاہے . انہوں نے کہاکہ پاکستان کا دوہرا موقف ہے کہ بین الاقوامی سرحد کے پار کوئی ناپسندیدہ نقل و حرکت نہ ہو اس کے لئے پاکستان نے مشکل ترین علاقوں میں 97فیصد باڑ لگائی ہے جبکہ یہاں پر اپنی افواج اور چوکیاں قائم کی ہیں . انہوں نے کہاکہ افغانستان کی طرف سے جو بھی فیصلہ کیا جانا ہے وہ ان کا فیصلہ ہو گا اور کسی بھی تحریک یا واقعہ کا ہمارے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں . انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی ضروری ہے پاکستان نے دنیا میں مہاجرین کی سب سے زیادہ مہمان نوازی کی اور انہیں پناہ دی ، انہیں وطن واپسی کا حق حاصل ہے ، افغان مہاجرین کی اکثریت قانون کی پاسداری کرتی ہے جبکہ بعض عناصر اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں . انہوں نے کہا کہ پرامن افغانستان ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ، افغان فریقین ایک بار اکٹھے بیٹھیں تو یقینی طور پر وہ کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں . . .

متعلقہ خبریں