آرمی چیف نے خواجہ آصف کوکہا خواجہ صاحب آپ ماشا اللہ فریش اور جوان دکھائی دے رہے ہیں آپ اگر ایک دو مرتبہ مزید جیل سے ہو آئے تو آپ اٹھارہ سال کے ہو جائیں گے خواجہ آصف نے فورا ً۔۔۔
سیکورٹی بریفنگ کے دوران اس کے علاوہ چند دل چسپ واقعات بھی پیش آئے‘ مثلاًخواجہ آصف جیل سے رہائی کے بعد پہلی بڑی میٹنگ میں شریک ہوئے تھے‘ آرمی چیف نے انہیں دیکھ کر کہا ’’خواجہ صاحب آپ ماشاء اللہ فریش اور جوان دکھائی دے رہے ہیں‘ آپ اگر ایک دو مرتبہ مزید جیل سے ہو آئے تو آپ اٹھارہ سال کے ہو جائیں گے‘‘ خواجہ آصف نے فوراً دونوں ہاتھ جوڑ دیے‘ میٹنگ میں چاروں وزراء اعلیٰ بھی شامل تھے لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے علاوہ تین وزراء اعلیٰ پوری میٹنگ کے دوران خاموش رہے‘ جام کمال نے بہت اچھی اور مدلل گفتگو کی‘ بریفنگ کے دوران فاٹا کا ذکر آیا تو عسکری قیادت نے کہا‘ آپ وزیراعلیٰ محمود خان سے پوچھیں فاٹا کا بجٹ ریلیز ہو چکا ہے تو پھر وہاں کام کیوں نہیں ہو رہا؟ شرکاء نے کے پی کے وزیراعلیٰ کی کرسی کی طرف دیکھا تو وہ خالی تھی‘ وزیراعلیٰ میٹنگ کے دوران خاموشی سے کھسک گئے تھے اور یہ اس کے بعد واپس نہیں آئے تھے‘ سندھ کے بارے میں بتایا گیا کراچی میں طالبان کے لواحقین اور دوستوں نے اڑھائی سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ وزیراعلی سندھ اس حقیقت سے واقف ہیں لیکن یہ کارروائی نہیں کر رہے‘ تمام شرکاء نے سید مرادعلی شاہ کی طرف دیکھا‘یہ بھی خاموش رہے‘ مولانا فضل الرحمن کے صاحب زادے اسعد محمود اور اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی دونوں مکمل تیاری کر کے آئے تھے اور دونوں نے خوب صورت اور ٹو دی پوائنٹ گفتگو کی‘ اسعد محمود کا موقف پی ڈی ایم سے بالکل مختلف تھا‘ انہوں نے فوج کے کردار کو سراہا بھی اور یہ بھی کہا‘ ہماری نظر میں کوئی گڈ اور بیڈ نہیں ‘ آپ ملک کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں‘ بلاول بھٹو نے علی وزیر کی سفارش کی‘ عسکری قیادت نے جواب دیا‘ ہم روز سرحدوں سے دس شہداء کی لاشیں اٹھاتے ہیں‘ آپ بے شک ہمیں گالی دے دیں‘ ہم برداشت کرنا سیکھ گئے ہیں لیکن کوئی فوج کو گالی دے ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے‘ آپ لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں‘ آپ حکومت سے بات کریں اور علی وزیر کے لیے رعایت لے لیں لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو علی وزیر وہیں کھڑے ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور فوج سے معافی مانگے جہاں اس نے فوجی جوانوں کے بارے میں غلط الفاظ کہے تھے‘ محسن داوڑ نے ایک گھنٹہ تقریر کی‘ یہ خاموش ہوئے تو آرمی چیف نے کہا‘ آپ یہاں موجود تمام لوگوں کو بتائیں میں آپ اور منظور پشتین کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر لایا تھا‘ آپ ہم سے ملتے بھی رہتے ہیں اور میں نے آپ کو دعوت بھی دی تھی‘ آپ ہمارے پاس آتے رہا کریں‘ ہمارے ساتھ چائے پیا کریں‘ آپ ہمارا’’فلیش اینڈ بلڈ‘‘ ہیں‘ یہ بات سن کر محسن داوڑ خاموش رہے جب کہ شرکاء حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے . افغانستان کی صورت حال بھی بتائی گئی اور اس کے بعد لیڈرز سے کہا گیا‘ آپ ہمیں گائیڈ کریں‘ آپ پالیسی بنائیں‘ ہمیں اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے لیکن 90 فیصد لیڈرز تیاری کے بغیر آئے تھے اور ان کے پاس کوئی سلوشن نہیں تھاتاہم سینیٹر مشاہد حسین سید نے آرمی چیف سے کہا ’’آپ ن لیگ پر ہتھ ہولا رکھیں‘‘ آرمی چیف کا جواب تھا’’ ہم سٹیٹ کے نمائندے ہیں‘ ہم ہر وزیراعظم کا ساتھ دیتے ہیں‘ ہم میاں نواز شریف کے احکامات بھی مانتے تھے اور شاہد خاقان عباسی کے بھی اور آج عمران خان وزیراعظم ہیں‘ ہم ان کے ساتھ بھی ہیں‘کل کوئی اور ہوگا تو ہم اس کے ساتھ بھی ہوں گے‘ ہمارا رول بس اتنا ہے‘‘ . مجھے کل میٹنگ میں موجود ایک خاتون ممبر نے بتایا ’’میں جنرلز کی تیاری اور ہوم ورک پر حیران رہ گئی جب کہ ہماری ساری سیاسی لیڈر شپ بے ربط اور لایعنی گفتگو کرتی رہی‘ مجھے ان حالات نے مکمل مایوس کر دیا‘ میں شدید ڈپریشن کے عالم میں وہاں سے اٹھی‘‘میں نے ان سے عرض کیا ’’ہمارا یہی المیہ ہے‘ ہمارے جنرلز ہمارے لیڈرز سے زیادہ پڑھتے اور زیادہ سوچتے ہیں‘‘ . . .