کوئٹہ (قدرت روزنامہ) وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہاہے کہ اگر نمبرگیمز پورے ہیں تو میدان میں آئیں نکالنے والے باتیں نہیں کرتے وہ اسمبلی پہنچ کر کاغذات جمع کرتے ہیں ،ہر رکن صوبائی اسمبلی کا حق ہے کہ وہ وزارت اعلی کیلئے بھاگ دوڑ کریں جس کے نمبرز پورے وہ وزیراعلی بن جاتاہے ،وزارت اعلیٰ کی کرسی بڑی بے وفاہے آج تک کسی کے ساتھ وفا نہیں کی انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے جام کمال قابل احترام لیکن اپنے دور اقتدار میں ہماری پی ایس ڈی پی روند ڈالی ہم انتقامی سیاست پر وقت ضائع کرنے کی بجائے ایک دن ہوں یا 10دن عوام کی ریلیف کیلئے کوششیں کریںگے ،ریکوڈک میں بلوچستان کا 25فیصد حصہ بہت بڑی کامیابی ہے ،کسی کا منصوبہ نہیں نکالاجائے گا،تمام اضلاع میں یکساں ترقیاتی کام اولین ترجیح ہے ،امن وامان برقراررکھنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے ،وزیراعلی ہاﺅس سے اختیارات سیکرٹریٹ منتقل کئے ہیں تاکہ لوگ وزیراعلی ہاﺅس کی بجائے سیکرٹریٹ میں ہی مسائل حل کریں ،جنوبی ،شمالی بلوچستان کی طرز پر نصیرآباد ریجن کیلئے بھی ترقیاتی پیکج منظور کرنے کیلئے کوشاں ہے تاکہ بلوچستان یکساں ترقی کرسکیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے سینئر صحافیوں کے اعزاز میں دئیے گئے عشائیہ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔میرعبدالقدوس بزنجو نے کہاکہ ہمارا خواہش تھا کہ بلوچستان کے ایڈیٹرز ،بیورو چیف سے ملاقات کروں آپ لوگ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ بلوچستان کے مسائل کو کیسے بہتر طورپر حل کرسکتے ہیں کیونکہ آپ وہ طبقہ ہے جو معاشرے میں لوگوں میں رہ رہے ہیں ان کے مسائل سے باخبر ہیں کوشش ہے کہ لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں ،میڈیا سے گزارش ہے کہ دھماکے وغیرہ کی فوٹیج چلا کر لوگوں کو دکھی کررہے ہیں ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو خوشیاں دیں دہشتگردی کے واقعات کو رپورٹ کرکے ہم انہیں پروموٹ کررہے ہیں اسلام آباد میں بھی سب کے سامنے یہی باتیں رکھیں ۔انہوں نے کہاکہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہواکہ ترقیاتی مد میں ایک ارب روپے بجٹ تھا 3سو ارب الوکیشن تھی تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے معاملات پیچیدہ تھے لیکن عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد تمام لوگ ایک پیج پر آگئے کسی کے ترقیاتی بجٹ پر کٹ نہیں لگاسکتے تھے کوئی نہیں چاہتاکہ ان کے ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگیں یا الوکیشن میں کمی ہوں ۔ڈیپسیٹ بجٹ پیش ہوتاہے جس میں معاملات کوآگے بڑھایاجاتاہے لیکن 200فیصد ڈیپسٹ پر جانا بہت بڑا چیلنج ہے ہم کوشش کررہے ہیں بلوچستان کا بنیادی مسئلہ امن وامان کا ہے اس کے علاوہ لوگوں کے مسائل ہے جب اقتدار سنبھالی تو ہر جگہ دھرنے ہی دھرنے تھے ،گلوبل ٹیچرز ،ڈاکٹرز سمیت دیگر سراپااحتجاج تھے ،ڈاکٹرز کو کہاکہ ان کے مسائل اپنے مسائل سمجھتے ہیں ان کے حل کیلئے کوششیں جاری ہیں ڈاکٹرز نے مثبت اقدام اٹھایاکہ ہمیں ذاتی مراعات نہیں چاہیے بلکہ ہسپتالوں میں سہولیات فراہم کی جائیں ،حکومت ڈاکٹرز کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ ہے ،2سالوں سے ادویات کی خریداری نہیں ہوئی تھی مسئلہ خریداری کاتھاکہ صوبہ خریداری کریں یا ضلع لیکن ہم نے آتے ہی ادویات کی خریداری ضلع کے حوالے کردیاہے ضلع کی سطح پر ادویات کی خریداری کی ذمہ داری سونپ دی ہے ہم رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے اس کے خاتمے پر یقین رکھتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ سریاب روڈ سمیت دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے روڈ کے کنارے واقع مسجد اللہ کا گھر ہے راستہ اللہ کے بندوں کا ہے مسلمان ہونے کے ناطے راستے میں پتھر کو ہٹایاجائے بھی تو آپ کو بڑا ثواب ملتاہے سبزل روڈکا بھی دورہ کرینگے تاکہ لوگوں کے مسائل سن سکیں ،پچھلے بار بھی کھلی کچہری کاانعقاد کیاتھا لوگوں کے ساتھ گل مل جائیں ہمارے دروازے لوگوں کیلئے کھلے ہیں ہمارا بہت سا وقت ضائع ہواہے لیکن آتے ہی دوبڑے مشکلات جنوبی پیکج اور ریکوڈک منصوبہ ہم نے بلوچستان ہی کو فوکس کیاہواہے جنوب ،شمال ہمارے لئے اہمیت نہیں رکھتے البتہ مذکورہ پسماندہ علاقے جنوب میں تھے تو پیکج کو جنوبی پیکج کانام دیاگیابلوچستان میں دو اقوام بلوچ اور پشتون ہے پشتونوں میں یہ احساس کہ وزیراعلی ہاﺅس میں صرف بلوچ علاقوں پر توجہ دی جارہی ہے تو میں نے وزیراعظم عمران خان سے بات کی کہ پشتونوں میں احساس محرومی پیدا ہورہی ہے کہ بلوچ سارے اپنے لئے لے گئے ہمارے لئے کچھ نہیں رکھا۔ہم نے کہاکہ ہم سب بلوچستانی ہے پشتون بیلٹ کو نظرانداز نہیں ہونے دینگے ،نصیرآباد ریجن پر بھی توجہ دیںگے ،عمران خان کے شکر گزار ہیں پشتون بیلٹ کو بھی میگا اسکیمات دیںگے ،کل کو اگر بلوچستانیوں نے ہمیں گلے سے پکڑا کہ 600ارب روپے کہاں گئے وفاق ہمیں کاغذات میں پھنسا دیتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ جب اقتدار سنبھالاتو ریکوڈک پر صوبے کو آن بورڈ نہیں لیاگیا تھا نہ ہی اسمبلی کو لیاتھا چیف سیکرٹری سے دریافت کیا سیکرٹری خزانہ سے دریافت کیا سابق وزیراعلی اکیلے تمام اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے جب حلف لیا تو ہم جہاز پکڑا اسلام آباد پہنچ گئے ۔میں نے کہاکہ خیر ہے توبتایاگیاکہ ریکوڈک کافائنل میٹنگ ہے سوچا ہمارے لئے بہت کچھ ہوگا ،ٹگانے کی کوشش کی لیکن ہم نے رضامندی ظاہر نہیں کی ہم نے اپنے شیئرز بارے پوچھا تو بتایاگیاکہ آپ کے شیئرز طے کرلئے گئے ہیں کیس ہم ہار چکے ہیں بہت سے معاملات ہیں پی آئی اور ریزولٹ ہوٹل نیلام ہورہے ہیں البتہ کچھ اپنے اور بلوچستان کو ٹیکس شامل ہیں ،بلوچستان کو صرف اور صرف 10فیصد اخراجات نکال کر دیاگیاہے ۔ہم نے کہاکہ 25فیصد شیئرز رکھیں کیونکہ ہم کرائسز میں ہے وفاق بھی پھنسا ہواہے تو بتایاگیاکہ 25فیصد ممکن نہیں آپ انویسٹمنٹ کرے ہم نے کہاکہ 25فیصد لیکر ہی جائیںگے ،بلوچستان کے لوگوں کو پتہ نہیں ہم سیدھے سادے لوگ ہیں ہمیں معاملات نہیں ہوتی ہم نے صرف اس منصوبے پر دستخط نہیں کرنے بلکہ اس کو چلانا بھی ہے ،آئندہ جو معاہدہ ہوگا جس کی بھی حکومت ہوگی ہم 50فیصد سے کم پر بات نہیں کرینگے بہت سے سیاسی رہنماﺅں نے کہاکہ 50فیصد ہوناچاہیے لیکن میں کہتاہوں کہ 80فیصد ہونی چاہیے البتہ ہمیں گراﺅنڈ کو بھی سامنے رکھنا پڑتاہے ،بلوچستان کے 10سال ضائع کئے گئے پھر بتایاگیاکہ 10فیصد فری جبکہ 15فیصد انویسٹمنٹ ہے جس کے بعدمیں وزیراعظم کوبتایاکہ بلوچستانیوں کے پاس دال روٹی نہیں آپ رقم مانگ رہے ہیں 15فیصد کا خرچہ وفاق کرے بصورت دیگر ہم منصوبے کا حصہ نہیں بنیںگے ،وزیراعظم ،شوکت ترین ،آرمی چیف سمیت سب کا شکرگزار ہیں بلوچستان کا حصہ 25ہے جس میں10فیصد فری جبکہ 15فیصد کا خرچ وفاق کے حصے میں ہوگا ،پہلے بھی ریکوڈک کیلئے گورنر راج لگوایا گیا تھا ،ہم نے معاملات کو حل کرنے سے پہلے ان کیمرہ بریفنگ رکھا کیونکہ ارکان اسمبلی عوام کے منتخب کردہ ہے 9گھنٹے کا نان اسٹاف سیشن جاری رہا ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ سے ملاقات کی شاید صحیح معنوں میں دعوت نہیں دی تھی شاید ہم اس کو اور بہتری کی طرف لے جائیں ،ہم نے اسمبلی اجلاس بلا کر کمیٹی حال میں تبدیل کیا تھا ریکوڈک معاہدہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔وسائل کی کمی کاسامنا ہے رائلٹی 4سال بعد ملنے والا ہے جس پر بتایاگیاکہ کام شروع کرنے سے پہلے بلوچستان کو رائلٹی کی مد میں جو رقم بنتی ہے وہ ادا کردی جائے گی پی ایس ڈی پی میں مدد بھی حاصل رہے گی ،ہم نے کہاکہ 3سال میں کام شروع نہیں ہوا تو معاہدہ ختم ہوگا،وفاق نے ٹیکس معاف کردئیے کیونکہ انہیں فائدہ نظرآیا کہ 8سے 10ارب ڈالر جیسے بڑی رقم ایک بہت بڑی کامیابی ہے ،ڈالر کی قیمتوں میں کمی ہوگی یہ بلوچستان کیلئے ایک گیٹ وے ہے دنیا کی سب سے بڑی گولڈ بیرک کارپوریشن بلوچستان آرہی ہے ۔بیرک گولڈ اورانٹافوگسٹا کا حصہ تھا بہت سی کمپنیوں کی جانب سے رابطے جاری تھے ،حکومتی کمپنیاں انٹافوگسٹا کا حصہ لے رہے ہیں ،نوجوانوں کو ہنرمند بنائیںگے ،مس انفارمیشن بڑا مسئلہ ہے جوبہت سی چیزوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے جو آسامیاں اعلان نہیں کی گئی تو خبریں آئی کہ فلاں اتنے میں بیچاگیا اورفلاں اتنے میں بیچا گیاہے پروسس سست روی کاشکار ہوا لیکن ہم نے موقع نہیں گنوایا بلکہ حکم دیاکہ تمام آسامیوں پر مکمل میرٹ کے ساتھ لوگوں کو بھرتی کیاجائے بلکہ اس کے ساتھ پبلک سروس کمیشن کو بھی بڑی تعداد میں آسامیاں دیں ۔پولیس میں آفیسران باہر سے آتے ہیں بلوچستان میں اے ایس آئی ڈی ایس پی تک پہنچ کرریٹائرڈ ہوجاتاتھا لیکن ہم نے 47آسامیاں تخلیق کی اور کمیشن کو بھیج دی کہ فوری طورپر انہیں اعلان کریں تاکہ وہ آگے ترقی پاتے ہوئے بڑے رینک تک جا کرریٹائرڈ ہوں ۔بلوچستان کا دوسرا مسئلہ بے روزگاری ہے سب اس چیز سے بخوبی واقف ہیں کہ بلوچستان آدھا پاکستان ہے اور آدھے پاکستان کو ایک سو ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ بہت کم ہے ترقی کیلئے اسلام آباد میں یہ معاملہ اٹھایاہے کہ بلوچستان کو اس کے حصے سے زیادہ دیاجائے تاکہ ہمارا صوبہ جو محرومیوں کاشکار ہیں اس کا خاتمہ ہوں ۔جو لوگ دن رات محنت کرکے اپنے گھر کے چولہے جلانے کی کوشش کررہے ہیں البتہ معاشرے کیلئے ناسور کو کسی صورت نہیں چھوڑاجائے گا ہر گاڑی پر رقم لیاجاتاتھا ہم مافیا کو کسی صورت سپورٹ نہیں کرینگے لیکن چھوٹے کاروبار جو اپنا گھر چلائیں ان کیلئے کوئی روک ٹھوک نہیں ہوگی ،بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پیٹرول پمپس ہی نہیں ہے انہوں نے کہاکہ سمندر میں ٹرالرز کامسئلہ سامنے آیا یہ بہت بڑا مسئلہ تھا لیکن ہم نے اس کو چیلنج سمجھ کر ان کے خلاف فیصلے لئے وزیراعلی سندھ سے ملا ان سے شکوہ کیاکہ آپ کی طرف سے ٹرالرز آتے ہیں وہ یہاں سب کچھ لے جاتے ہیں انڈے تک نہیں چھوڑتے ہماری آئندہ آنے والی نسل کیلئے کچھ نہیں چھوڑا گیا جس پر انہوں نے کہاہم بھی اس کی اجازت نہیں دینگے ،فشریز ڈیپارٹمنٹ کو پابند کیاہے کہ وہ سمندر میں ٹرالرز کے خلاف کارروائی عمل میں لائیں کسٹمز کی پولیسنگ اختیارات اگر ہیں توواپس لیاگیا سڑک پر کسٹم کا کوئی چیک پوسٹن نہیں ہوگا سب کو ختم کیاجائے گا، غیر قانونی بھرتیوں کو پروموٹ نہیں کیاجائے گالیکن جنہوں نے غیرقانونی بھرتی کی ہے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے میرٹ کے برخلاف بھرتی ہونے والوں کو اب نکال نہیں سکتے ،سی اینڈ ڈبلیو کے ملازمین سراپااحتجاج رہیں ،صوبائی کابینہ نے فیصلہ لیا کہ ان ملازمین کو مستقل کیاجائے گاآئندہ ایسا سخت قانون بنایاجائے کہ کسی کو غیر قانونی طریقے سے بھرتی نہیں کیاجاسکے ۔سی اینڈ ڈبلیو کے ملازمین کو کچھ دنوں میں آرڈرز دئیے جائیںگے ،محکمہ صحت میں نرسز کی کمی کامسئلہ درپیش ہے اب نرسز کو کنٹریکٹ پر لیاجارہاہے ،ہم صرف یہاں فیصلوں کیلئے بیٹھیںگے تاکہ لوگوں کیلئے ریلیف پیدا کرسکیں ،8گھنٹے کسی کو بیٹھا کر بھی کسی کو سمجھ نہیں آنا کہ کیا کرناہے کیا نہیں ، تین سے 4کابینہ اجلاس منعقد کئے ہیں ،65سے زائد اہم امور کی منظوری دی ہے ،عوام کی بہتری کیلئے اقدامات شامل ہیں ،4ماہ میں ترمیم کے 12بل اسمبلی میں پیش کرکے منظور کئے گئے ،ہمیں اس وقت مشکل کاسامنا کرناپڑا جب200ڈیپسٹ کاسامنا کرناپڑا کہ کس منصوبے کو ترجیح پررکھیں کس کو نہیں لیکن ہم نے آگے پیچھے کرکے معاملات آگے بڑھائیں ہم انتقامی کارروائی نہیں کرینگے ،ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد سے ایک دم 25تک بڑھادیاگیا تمام بڑے سیاسی رہنماﺅں کے پاس گیا سب نے کہاکہ بہت بڑا فیصلہ لیاہے جو بلوچستان کے مفاد میں ہے ،ایران حکومت سے رابطہ کیاگیاہے کہ یہاں زائرین کیلئے مشکلات کاسامنا ہے آپ فلائٹ آپریشن شروع کریں سمری پہنچ گئی ہے کہ ایران سے کوئٹہ کیلئے فلائٹ آپریشن شروع کیاجائے گاتاکہ زائرین کومشکلات کاسامنا نہ کرناپڑے وہ آرام سے مذہبی رسومات کی ادائیگی کرسکیں یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔انہوں نے کہاکہ جب میں پچھلی بار وزیراعلی بنا تو اسکیمات روک دئیے گئے اگلے سال ایک روپیہ خرچ نہیں ہوا بلوچستان میں ذریعہ معاش کے ذرائع کم ہے لوگوں کو سہولیات میسر نہیں وہ مختلف ذرائع سے روزگار بنا رہے ہیں میں نے کہاکہ ہم پرانے وزرائے اعلی کی روش پر نہیں چلیںگے ،ای ٹینڈرنگ شروع کردی گئی ہے جس میں دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ کس نے کتنا ٹینڈردیاہے کسی کو مرضی سے ٹینڈرز نہیں ملنے والا کسی صوبے نے اب تک یہ اقدام اٹھایاہے نہ ہی وفاق نے ، ہم نے اسسٹنٹ کمشنرز، سیکشن آفیسرز، ڈی ایس پیز، سی ٹی ڈی میں ہزاروں آسامیاں دی ہے تاکہ وہ بھرتی ہوکر بلوچستان کی خدمت کریں نوجوانوں کی فنی تربیت کیلئے 2ارب روپے کا پروجیکٹ شروع کیاگیاہے انہیں ہنرمند بنایاجائے تاکہ آئندہ جو کمپنیاں یہاں کام کرے تو یہ بھی اپنا حصہ ڈال سکیں ۔نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے ساتھ تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں تاکہ وہ مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوائیں وزیراعلی بلوچستان نے کہاکہ صحت کارڈ پر کام شروع ہوا دیگر صوبوں نے فیز طرز پر کام کیا لیکن ہم نے تمام صوبے کو ایک ساتھ ہیلتھ کارڈ دینگے ،آئندہ کابینہ اجلاس میں اس کی منظوری دی جائے گی یہ بہت بڑا کارنامہ ہے ،9سو سے ہزار کے قریب فائلز ملیں جس میں ایسے بھی فائلز تھے جو2019 سے پڑھے تھے فائلز کو مکمل پڑھنا پڑھتاہے ان کی اچھے برے اثرات دیکھنے ہوتے ہیں کورونا کی وجہ سے فائل روک گئی لیکن اب وہ سلسلہ پھر سے چل پڑاہے ،انہوں نے کہاکہ جو صوبہ بڑا ہے لیکن آبادی کم ہے وفاقی پی ایس ڈی پی میں فنڈز رکھے جاتے ہیں این ایچ اے کے منصوبے ہوں تو حیلے بہانے بنائے جاتے ہیں جس نے کوئٹہ دیکھاہے نہ تربت اور پھر خوش گپے لگاتے ہیں بلوچستان کیلئے پراپر پی سی ون نہیں دیتے اب حالات پہلے سے بہتر ہورہے ہیں لیکن خطرات موجود رہتے ہیں ریکوڈک کا اجلاس چھوڑ کر کوئٹہ آیا خطرے سے متعلق اجلاس منعقد کی بلوچستان کے لوگوں کی جان ومال کاتحفظ ہمارا فرض ہے سیکورٹی برقراررکھنا قانون نافذ کرنیو الے اداروں کی ذمہ داری ہے ۔کوئی نہیں کہے گاکہ فائل وزیراعلی سیکرٹریٹ میں پڑا ہے وہ آگے نہیں بڑھ رہا ہم نے اختیارات سیکرٹریٹ کو واپس کردئیے ہیں لوگ وزیراعلی ہاﺅس کی طرف رخ کرنے کی بجائے سیکرٹریٹ میں اپنے مسائل حل کریں چیف سیکرٹری اور ڈپٹی کمشنرز کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ کھلی کچہریاں منعقد کرے لوگوں کے مسائل سن کر ان کے حل کیلئے اقدامات اٹھائیں ۔کوئٹہ میں ڈیڑھ سال سے کوئٹہ پیکج سریاب روڈ،سبزل روڈ پر کام نہیں ہورہا تھا کھڈوں کی وجہ سے لوگ حادثات کاشکار ہوئے ہم نے آتے ہی احکامات جاری کردئیے ۔پہلے باہر سے آنے والے آفیشلز سمیت سب کو 4ماہ میں این او سی حاصل ہوتی تھی لیکن اب صرف 4ہفتے میں این او سی حاصل کی جاسکتی ہے ،باہر کے سرمایہ کاروں کو ویلکم کیاجائے گا صوبے کے قانون کے مطابق کام کرنے والے سرمایہ کاروں کو فرینڈلی ماحول فراہم کرکے ہرممکن تعاون فراہم کی جائے گی ۔انہوں نے کہاکہ ہمیں کہاجاتاہے کہ تبدیلی بلوچستان سے شروع ہوتی ہے پھر روکتی نہیں ایسا کبھی ہوا نہیں 2018 میں ہوا وفاق پر فرق نہیں پڑا 92 میں معاملہ آیا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا ،97 میں آیا لیکن فرق نہیں پڑا اس بار یہاں جو تبدیلی آئی وفاق میں بھی آرہی ہے اگر ہم سے پہلے کردیتے تو اچھا اب یہ معاملہ ہمارے گلے میں ڈال دیاہے ،بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابات کیلئے جارہے ہیں ایم این ایز اسلام آباد میں بیٹھے ہیں پوری پارٹی نے میر خالد مگسی اور دیگر کو فری ہینڈ دیاہے کہ وہ بلوچستان کے بہترمفاد میں فیصلے کریں فیصلے سے قبل سب بیٹھ کر ایک دوسرے کو آن بورڈ لیںگے وہ ملاقاتیں کررہے ہیں ان کے فیصلے بلوچستان کے مفاد میں ہونگے ،بارش اور پانی کو دیکھ لوگ پانچیں اوپر کرتے ہیں اگر نمبر گیمز پورا ہے تو میدان میں آئیں نہیں ہے تو پھر بھی مسئلہ نہیں ہے جو ایم پی اے بنتاہے اس کا حق ہے کہ وہ وزیراعلی کیلئے بھاگ دوڑ کریں ،جام کمال ہمارے لئے محترم ہیں انہوں نے ہماری پی ایس ڈی پی کو روند ڈالا لیکن ہم ایسا نہیں کرتے اگر ایک دن ملایا دس دن ملتے ہیں تو ہم عوام کوریلیف کیلئے کام کرینگے انتقامی سیاست نہیں کرتے یہ کرسی بے وفا ہے آج تک کسی سے وفا نہیں کی ہے کل کو کوئی نکال دیں تو پہلے نہیں بیٹھنا چاہیے ،نکالنے والے بات نہیں کرتے وہ اسمبلی پہنچ کر کاغذ جمع کردیتے ہیں باتوں سے کچھ نہیں ہوتا ایسے چھوٹے باتوں سے اپوزیشن فائدہ اٹھا رہاہے البتہ ان کی تحریک سے مجھے مشکلات نظرنہیں آرہی میں عقل کل نہیں نکالنے کے بہت سے راستے گورنر راج بھی لگ سکتاہے میں نے بہت سخت حالات کاسامنا کیا ،اللہ تعالی نے تحریک عدم اعتماد میں کامیابی دی ۔
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد خان کا کہنا…
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) مشیر وزیر اعظم برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے…
اسلام اآباد(قدرت روزنامہ)امارات میں جاری ویزا ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے دبئی امیگریشن نے جیو…
ممبئی(قدرت روزنامہ)وینا ناگدا بھارت کی وہ مشہور مہندی آرٹسٹ ہیں جو اپنے خوبصورت آرٹ اور…
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)پاکستان میں روزانہ غیر اخلاقی ویب سائٹس تک رسائی کی 2 کروڑ کوششوں…
لاہور(قدرت روزنامہ)بھارتی میڈیا کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے چیمپئنز ٹرافی کے سلسلے میں پاکستان…