اسلام آباد (قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کیا وزیراعظم کو عدلیہ پر اعتماد نہیں اور کیا انہیں غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روکا جا سکتا . چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی .
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا آپ کو لگتا ہے کہ آرٹیکل 63A میں کسی قسم کی کمی ہے .
؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63A کو اکیلا نہیں پڑھا جا سکتا، پارٹی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والی جماعتیں ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، کوئی پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتا تو مستعفی ہو سکتا ہے، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا تاحیات نااہل ہونا چاہئیے . جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 63A کو 62 ون ایف کے ساتھ کیسے جوڑیں گے، کیا کسی فورم پر رشوت لینا ثابت کیا جانا ضروری نہیں، رشوت لینا ثابت ہونے پر 62 ون ایف لگ سکتا ہے، منحرف رکن اگر کسی کا اعتماد توڑ رہا ہے تو خیانت کس کے ساتھ ہو گی .
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سب سے پہلے خیانت حلقے کی عوام کے ساتھ ہو گی، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی قانونی طور پر بدیانتی ہے، قانونی بدیانتی پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہو گا . جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے کمالیہ کی تقریر میں کہا کہ ججز کو ساتھ ملایا جا رہا ہے ؟ اس کو بھی دیکھیں،سوشل میڈیا ٹی وی پر سنا تھا . کیا آپ نے وزیراعظم کی بات کا نوٹس لیا؟عدالتی سوالات کو کس طرح لیا جاتا ہے .
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ سیاسی قائدین کو علم ہونا چاہئیے زیر التوا مقدمات پر بات نہ کریں، اگرچہ عدالت تقاریر اور بیانات سے متاثر نہیں ہوتی، سوشل میڈیا پر بھی کارروائی پر گفتگو احتیاط سے کرنا چاہئیے . چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی بیانات دینے سے منع نہیں کر سکتے، سیاسی رہنما ججز کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کریں، سیاسی بیانات سے عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کریں .
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وزیراعظم کو عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے، کیا وزیراعظم کو غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روکا جا سکتا؟ وزیراعظم کو اعلی عدالتوں کے فورم پراعتماد نہیں تو ان کے نمائندوں کو کیسے ہو گا . اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تقاریر سنتا نہیں اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا، عدالت کو بیانات اور تقاریر سے متاثر ہونا بھی نہیں چاہئیے،وزیراعظم کو عدللیہ پر مکمل اعتما ہے .