وزیرِ اعظم شہباز شریف انشاءاللّہ!

لاہور(قدرت روزنامہ) مریم نواز کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف انشاء اللّہ!۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیا گیا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں مریم نواز نے کہا کہ شکر الحمدُ للّٰہ ربّ العالمین۔
قوم کو آئین کی سر بلندی بہت بہت مبارک۔ آئین توڑنے والوں کا کام ہمیشہ کے لیے تمام ہوا۔ اللّہ پاکستان کو چمکتا دمکتا رکھے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف انشاءاللّہ! دوسری جانب جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے کیس کا متفقہ فیصلہ سنایا۔

بنچ میں شامل تمام 5 ججز نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دینے، تحریک عدم اعتماد بحال کرنے کے فیصلے پر اتفاق کیا۔

5 رکنی لارجر بنچ نے قومی اسمبلی کو بحال کردیا، جبکہ اسپیکرقومی اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد پر 9 اپریل بروز ہفتہ کو10 بجے ووٹنگ کرانے کا حکم دے دیا، حکم دیا گیا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت نئے وزیراعظم کا فوری انتخاب کیا جائے، حکومت کسی بھی طرح اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے مت روکے۔ عدالت نے اسمبلی کی تحلیل کو بھی غیرآئینی قرار دے دیا، کہا وزیراعظم صدر کو ایڈوائس نہیں کرسکتے۔

جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے 5 رکنی لارجر بینچ نے معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر مسلسل پانچویں روز بھی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ میں شامل تھے۔ سماعت کے آغاز میں پنجاب کی صورتحال کا تذکرہ ہوا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے روسٹرم پر آکر عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام اراکین صوبائی اسمبلی نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنا دیا، سابق گورنر چوہدری سرور حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی بلا لی ہے، آئین ان لوگوں کے لیے انتہائی معمولی سی بات ہے اس پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال سے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائی کورٹ میں لے کر جائیں، قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔ جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیے گئے تھے، کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہی بعدازاں چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹادیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ جسٹس مظہر عالم خیل نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا ۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر زیادتی کسی ایک رکن کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہی جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہی اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، نیشنل اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے اس نے اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لائین کھینچنا پڑیگی۔ صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آئینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔
جسٹس مظہر عالم میاں خلیل نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہی سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہی وزیراعظم آئین کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں، نگران وزیراعظم کا تقرر کا عمل بھی جاری ہے، اس سب میں بحران کہاں ہی سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے، ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کا اعلان کردے، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر کی رولنگ حکومت اور وزیراعظم کی مدت کی توسیع کیلئے ہوتی تو بہت غلط ہوتا، موجودہ صورتحال میں وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کا اعلان کردیا گیا، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریت جماعت ہے، اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آؤٹ ہو جائے تو کیا ہوگا ۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صدر مملکت کے وکیل کی حیثیت سے سیاسی معاملے کا نہیں دے سکتا ساتھ ہی ان کے دلائل مکمل ہوگئے۔وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی، عدالت کے سامنے معاملہ ایوان کی کارروائی کا ہے، ایوان کی کاروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کی کال دیکر 90 دن کیلئے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، وزیراعظم صدر کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے۔امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔
امتیاز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں، عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئی جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی گئی، وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گی ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی، اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا، وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔وکیل وزیر اعظم نے کہا کہ اگر آئین کو نقصان پہنچانا ہوتا تو ڈپٹی اسپیکر منحرف اراکین کی رکنیت معطل کرسکتا تھا، وزیراعظم نے بدنیتی کا مظاہرہ نہیں کی، وزیراعظم نے کہا انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے ان کے خلاف عوام میں جا رہا ہوں جنہوں نے کئی سال حکومتیں کیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے خود سے منصوبہ بنایا، اسپیکر نے 28 مارچ کو رولنگ کیوں نہیں دی ۔امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی، ہم نے خود اپنی حکومت تحلیل کی۔امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اسپیکر کی پیروی کرنے والے نعیم بخاری نے کہا کہ سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا،کیا پوائنٹ آف آرڈر ہر کسی بھی وقت بات ہوسکتی ہے اس پر دلائل دوں گا، پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر وزیر قانون نے ہٹایا تھا، کیا آپ کے پاس وزیر قانون کے پوائنٹ آف آرڈر کا متن ہی جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا سپیکر کو کوئی مواد پیش کیا گیا جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ رولنگ آئینی تھی یا غیر آئینی تھی، اگر رولنگ غیر آئینی تھی تو کیا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ رولنگ کے دوران کیا طریقہ کار کی غلطی کی گئی ماضی میں سپریم کورٹ نے مداخلت سے گریز کیا تھا اگر اسپیکر فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر مسترد کردیتا تو کیا سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہی ۔نعیم بخاری نے کہا کہ اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب اسمبلی توڑی گئی تو اسے غلط قرار دینے کے باوجود بھی الیکشن کے عمل کو نہیں روکا گیا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی شروع ہوتے ہی فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہوجاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہی جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں۔
اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے منٹس عدالت میں پیش کردئیے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسپیکر کی تحریک مسترد کرنے کا اختیار قانون میں کہاں لکھا ہے، ہم پوائنٹ آف آرڈر کی تعریف سمجھنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک آجائے تو کیا نیا پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا جاسکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اٹھایا گیا پوائنٹ آف آرڈر ایجنڈے میں شامل تھا ۔نعیم بخاری نے عدالت جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر کسی بھی وقت بات ہوسکتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ آئینی تقاضا ہے، کیا ووٹنگ کے آئینی حقوق کو رولز کے زریعے غیر مؤثر کیا جاسکتا ہی ۔نعیم بخاری نے 28 مارچ کے قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا سوال نہیں پوچھنے صرف ووٹنگ کرائیں، اس شور شرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفننگ دی گئی، کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ کس نے دی تھی ۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پوائنٹ آف ارڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی جبکہ رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہے، ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کدھر ہیں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میٹنگ کے منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی، کیا ڈپٹی اسپیکر اجلاس میں موجود تھے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھی وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا ۔عدالت نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہیے تھا، مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس میں 57 ارکان موجود تھے، اراکین اسمبلی کے نوٹس میں خط کے مندرجات آ گئے تھے، کیا پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا ۔نعیم بخاری نے عدالت میں فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اجلاس کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔
انہوںنے کہاکہ وزیراعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں۔انہوں نے کہا کہ صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا بلکہ ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کے لیے عدالت نہیں آ سکتا۔

Recent Posts

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے استعفے کی پیشکش کردی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ اگر میرے…

2 hours ago

داؤد ابراہیم کے نیٹ ورک سے تعلق ہونے کی خبر دینے پر سلمان خان نے بھارتی خبررساں ایجنسی کو نوٹس بھیج دیا

ممبئی(قدرت روزنامہ) بالی ووڈ کے سپر سٹار سلمان خان نے خبر رساں ایجنسی ایشیا نیوز…

2 hours ago

لاہور، پی ٹی آئی کارکنوں کا گرفتاریوں کے خلاف شدید احتجاج، پولیس پر پتھراؤ

لاہور (قدرت روزنامہ) پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کی گرفتاریوں کے بعد مشتعل افراد نے…

2 hours ago

پی ٹی آئی کا جلسہ:انتظامیہ سے درخواست ہےراستوں میں رکاوٹ نہ ڈالیں، بیرسٹر گوہر

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے پاکستان تحریک انصاف کو…

2 hours ago

عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے لاہور میں راستے بلاک کرنے کی ویڈیو شیئر کردی

لاہور (قدرت روزنامہ) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…

2 hours ago

آئینی عدالت کے قیام کا بانی پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلاول بھٹو کا بیان

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے…

3 hours ago