دھمکی آمیز خط لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)وفاقی حکومت نے دھمکی آمیز خط پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے، اس کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی ہے، واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و قانون چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ کابینہ نے عالمی سازش کو سامنے رکھ کر لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے، کمیشن دیکھے گا کہ خط میں رجیم چینج کی دھمکی دی گئی ہے یا نہیں، خط کا مواد اسمبلی میں

رکھا جائے گا، دیکھا جائے گا کہ عالمی سازش میں مقامی ہینڈلر کون تھے،کمیشن 90روز میں اپنی رپورٹ دے گا . جمعہ کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اسلام آباد میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے آج ایک بار پھر عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، کابینہ نے اپنے عزم کو دوہرایا کہ پوری قوم کی طرح ہم بھی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں .

گزشتہ روز سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے پر بات کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کل کے فیصلے سے پوری پارلیمنٹ کی سپریمسی اور بالادستی خطرے میں پڑھ گئی ہے . ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے جسطرح سے حکم جاری کیا، اسمبلی کا اجلاس بھی خود طلب کرلیا، اجلاس کے وقت کا تعین بھی خود کیا، اس سے پارلیمنٹ کی بالادستی خطرے میں پڑھ گئی ہے . انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس اسپیکر کی رولنگ کا مواد نہیں تھا تو پھر کیسے عدالت اس پر یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ اسپیکر نے اپنا ذہن استعمال کیا ہے یا نہیں . فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر عدالت رولنگ سے متعلق فیصلہ کرنا چاہتی تھی تو اس کو تمام مواد کو دیکھنا اور اس کا جائزہ لینا چاہیے تھا جو اسپیکر کے پاس موجود تھا یا جس کی بنیاد پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے اور اجلاس ملتوی کرنے کے فیصلے تک پہنچے تھے . انہوں نے کہا سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے سے متعلق ہماری قانونی ٹیم مشاورت کر رہی ہے، قانونی ٹیم فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے سمیت دیگر قانونی آپشنز کا جائزہ لے رہی ہے . ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے جو حیرت انگیز فیصلہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو ہمارے منحرف اراکین ہیں وہ ووٹ ڈال سکیں گے جبکہ وہ کیس تو سپریم کورٹ میں سنا ہی نہیں گیا، سپریم کورٹ کے سامنے تو یہ کیس ہی نہیں تھا کہ وہ ووٹ ڈال سکتے ہیں یا نہیں . انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں جس طرح سے ہارس ٹریڈنگ کی گئی ہے اس پر پوری قوم کو تشویش ہے . ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ گزشتہ روز کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اداروں کا اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کا اصول متاثر ہوا ہے، پاکستان میں 'سیپیریشن آف پاور' کے اصول کی بری طرح خلاف ورزی ہوئی ہے، اب پارلیمنٹ کی حاکمیت اور بالا دستی اب برقرار نہیں رہی، حاکمیت اور بالا دستی اب پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ کی جانب منتقل ہوگئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ اب پاکستان کے عوام ملک کے حاکم نہیں رہے بلکہ چند ججز اب ملک کے فیصلے کریں گے . انہوں نے کہا کہ ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور ہم اس پر نظر ثانی کے لیے عدالت سے رجوع کریں گے . وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف موجودہ تحریک عدم اعتماد کوئی عام تحریک نہیں جو عام حالات میں پیش کردی گئی ہو، اگر یہ عام روایت کے مطابق تحریک ہوتی تو اس کا خیر مقدم کیا جاتا لیکن یہ تحریک عدم اعتماد عالمی سازش کے تحت لائی گئی ہے . ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کے سامنے اب تک جو مواد موجود ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد وزیراعظم کے خلاف ایک عالمی سازش کے تحت لائی گئی ہے . وفاقی وزیر نے کہا کہ اس تحریک عدم اعتماد کی پشت کے اوپر چند بڑے مافیاز اور ممالک ہیں اور جسطرح سے اس کو پاکستان کے عوام تک پہنچایا جارہا ہے تمام مراحل اور اقدامات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ عالمی سازش ہے . انہوں نے کہا مراسلے کے معاملے پر غور و خوض کے بعد کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مواد جو اس وقت وفاقی حکومت کے پاس موجود ہے اسکو 'اورجنل سائفر' دیے بغیر تمام اراکین اسمبلی کے سامنے رکھے جائیں، جو اس تحریک عدم اعتماد کی شہادتیں ہیں, وہ اراکین اسمبلی کے سامنے رکھی جائیں، اور اس کے بعد بھی کوئی تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دینا چاہتا ہے تو پھر پاکستان کے عوام فیصلہ کریں گے کہ کون کس جانب کھڑا ہے . انہوں نے کہاکہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا تو اگر میر جعفر جیسے مقامی لوگ اس کے ساتھ نہیں ملتے تو ہندوستان کبھی محکوم نہیں ہوتا . ان کا کہنا تھا کہ اگر آج قوم نے اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کی تو پاکستان پھر ایک بہت بڑی غلامی میں چلا جائے گا اور پھر ہمیں اپنی جدوجہد 23 مارچ 1940 سے دوبارہ شروع کرنی پڑے گی، اس غلامی کے نتیجے میں ایک امپورٹڈ، سلیکٹڈ حکومت ہمارے اوپر مسلط ہوگی جس کی باگیں کہیں اور سے ہل رہی ہونگیں .

. .

متعلقہ خبریں