اسلام آباد (قدرت روزنامہ) سینٹ میں اپوزیشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شدید احتجاج اور چیئر مین سینٹ کے ڈائس کا گھیرائو کرتے ہوئے ایوان سے علامتی واک آئوٹ کیا اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی ایوان میں حاضری کا مطالبہ کرتے ہوئے
امپور ٹڈ حکومت نا منظور اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نا منظور کے نعر لگا دیئے . جمعرات کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت اجلاس شروع ہوا تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہاکہ وزیر خزانہ کو سینیٹ میں حاضر کریں .
اپوزیشن لیڈر سینیٹر شہزاد وسیم نے کہاکہ سینیٹ میں وزیر خزانہ کے بغیر بجٹ پر بحث نہیں ہو سکتی . اس دور ان اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ کے ڈائس کا گھرائو کرلیا جواب میں حکومتی بنچز سے کشمیر کے سوداگر نامنظور کے نعرے لگائے گئے . سینیٹر بہرہ مند تنگی نے نعرے بازی کی . قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے نکتہ اعتراض پر کہاکہ کہاں پر وزیر خزانہ؟ ،کس بل میں یہ چھپے ہیں؟ ،پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نامنظور ہے،کہاں ہے آئی ایم ایف کا نمائندہ؟،چیئرمین صاحب آپ وزیر خزانہ کو طلب کریں . اجلاس کے دور ان اپوزیشن نے ایوان میں شورشرابہ کرتے ہوئے چیئرمین ڈائس کا گھیراؤ کرلیااور شدید نعرے بازی کا سلسلہ جاری رکھا تاہم چیئر مین سینٹ نے اپوزیشن کو کہا آپ باہر جا کر نعرے بازی کریں جس کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر اپوزیشن نے سینیٹ سے واک آئوٹ کی تاہم اپوزیشن کو بہرہ مند تنگی اور دنیش کمار کو منا کر ایوان میں منا کر لائے . بعد ازاں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینٹر شبلی فراز نے کہاکہ
اس بجٹ کو کوئی بجٹ کہے تو یہ بجٹ نہیں ،یہ بجٹ ہمارا بجٹ نہیں آئی ایم ایف کا بجٹ ہے،آپ نے جو بجٹ بنایا ہے یہ کینڈی لینڈ بجٹ بنایا گیا ہے،ہمارے ملک میں دو مسائل ہیں ایک توانائی اور دوسرا پینشنز . شبلی فراز نے کہاکہ قیمتیں جو بڑھائی گئیں یہ یہاں پر ختم نہیں ہوئیں،بجٹ میں لیوی کی مد میں 750 ارب روپے کے ٹیکسز بھی شامل ہیں،ہماری بجلی کی قیمتیں بھی بڑھیں گی . انہوںنے کہاکہ ہماری بجلی کی طلب 27 ہزار میگاواٹ گرمیوں میں
ہوتی ہے،سردیوں میں ہماری طلب 8 سے 9 ہزار میگاواٹ ہو جاتی ہے،آج تک کسی نے نہیں سوچا کہ 17 سے 18 ہزار میگاواٹ کولنگ کیلئے جاتے ہیں . شبلی فراز نے کہاکہ احتساب کا جو بل پیش کیا گیا اسمیں ہم سب استعمال ہوئے ،بلکہ ہم استعمال نہیں ہوئے ہم نے تو دستخط ہی نہیں کئے ،آپکو پتہ لگ جائیگا کہ اسکے پیچھے کون ہے،جنکے کیسز ختم ہو رہے ہیں انکا آپکو پتہ لگ جائیگا ،آپ ایف آئی اے کو آگے پیچھے کر رہے ہیں،5 گواہان
مرچکے ہیں, ہارٹ اٹیک ہوا کیسے ہوا کوئی پوچھنے والا نہیں . انہوںنے کہاکہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایوان اقبال میں بلا لیا گیا ،آپ نے تو جمہوریت سے بھی پرے کے اقدامات اٹھائے ہیں ،آپ تو سینئر تھے 30 30 سال کا تجربہ تھا ملک کو کیا دیا کیا فائدہ ہوا ؟،ملک کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے ،عوام کو پٹرول کی لائینوں میں لگا کر حواس باختہ کردیا ہے ،اداروں کو ڈسفنکشنل کیا جا رہا ہے . انہوںنے کہاکہ ہم این آر او ٹو سے بینیفشریز کی لسٹ
یہاں پارلیمنٹ میں لائینگے ،لوگوں کو بتائینگے کہ یہ آئے کیوں ہیں . سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ گزشتہ 20 دنوں میں پٹرول کی قیمت میں 84 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 120 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، ہم اس اضافے کو مسترد کرتے ہیں، چار سو اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ای سی سی نے بجلی کی قیمت میں 13 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی ہے، اس سے ملک میں مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی، عام آدمی کا جینا
دوبھر ہو گیا ہے . سینیٹر دوست محمد نے کہا کہ مہنگائی کی ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت نہیں، ماضی کے حکمران تھے، ہمیں ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے اخراجات میں کمی لانا ہو گی . سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق بنایا گیا ہے، بجٹ میں کوئی ایسی ترجیحات متعین نہیں کی گئی جس سے ہماری معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہو . سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا کہ غریب کسان، دیہاڑی دار
مزدور اور طالب علم سبھی بجٹ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر پریشان ہیں، لوگوں کی مالی مشکلات بڑھ رہی ہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد تمام اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا . بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پاکستان بدقسمتی سے 75 سال میں درست سمت پر نہیں چل پایا، تحریک انصاف کی حکومت ان امیدوں پر پوری نہیں اتری جس کے لئے وہ
لائی گئی تھی، ماضی میں جو فصل بوئی گئی اگر وہ پھل دیتی تو ملک اس طرح کی صورتحال سے دوچار نہ ہوتا . انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کے خاتمے کے لئے سازش کی بات کی جاتی ہے، معلوم نہیں یہ سازش کہاں ہوئی اور کیسے ہوئی ہے، سازش تو شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ہوئی تھی جنہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا، سازش تو لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے خلاف ہوئی تھی جنہیں شہید کر دیا گیا . انہوں نے کہا کہ ملک کو اس وقت
مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور حکومت نے موجودہ حالات میں مناسب بجٹ پیش کیا ہے لیکن تعلیم کے لئے بجٹ جی ڈی پی کے صرف 1.77 فیصد رکھا گیا ہے جو بہت کم ہے، ایچ ای سی کا بجٹ 64 سے 65 ارب روپے ہے جس سے یونیورسٹیاں اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتیں، نیب جیسے ایسے ادارے جو معیشت کو کھوکھلا کر رہے ہیں، ان کا بجٹ کم کر کے تعلیم کے لئے فنڈز دیئے جائیں . انہوں نے تجویز پیش کی کہ تعلیم کے لئے 5، 6
ارب روپے کا ایک امدادی فنڈ قائم کیا جانا چاہیے جس میں ہمارے صنعت کار اور دیگر صاحب ثروت لوگ بھی مالی معاونت کریں . انہوں نے کہا کہ اعلی افسران اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد کا یکساں اضافہ کیا گیا ہے، افسران کی تنخواہ تو پہلے ہی لاکھوں میں ہوتی ہے، انہیں 15 فیصد اضافے سے اور زیادہ فائدہ ہو گا، چھوٹے ملازمین کو ان کی تنخواہ میں اضافے کا اتنا فائدہ نہیں ہوتا، تنخواہوں میں اضافے میں چھوٹے ملازمین کو
زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے . سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ مشکل حالات میں آئندہ مالی سال کا بجٹ ایک متوازن بجٹ ہے، آئی ایم ایف کی شرائط غریب ممالک کے لئے تباہ کن ہوتی ہیں، ہمیں ملک کو اپنا پائوں پر کھڑا کرنے اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات پانے کے لئے بدعنوانی پر قابو پانا ہو گا، صنعتی اور زرعی شعبے کو ترقی دینا ہو گی . انہوں نے کہا کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن وہاں کے عوام میں بہت احساس محرومی پایا
جاتا ہے، وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی پر خصوصی توجہ دے . انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے حوالے سے قانونی تقاضے پورے ہونے چاہئیں . سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے کہا کہ عمران خان کے دور میں کرپشن کی انتہا ہو گئی، توشہ خانہ کی گھڑیاں اور انگوٹھیاں تک بیچ دی گئیں، ملک کو معاشی تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا گیا، ڈیموں کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے دور میں کوئی ایک ڈیم بھی نہیں بنا جن ڈیموں کا کریڈٹ لے رہے ہیں، ان کا کام پچھلی حکومتوں کے ادوار میں شروع ہوا تھا .
. .