اسلام آباد (قدرت روزنامہ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو منفی سیاست سے اداروں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے،عمران خان وہ ڈرائیور ہے جو حادثہ کرکے کہے کہ کیسے ہوا،سیاست بچانی ہوتی تو ملک کو غیر یقینی صورتحال میں جھونک دیتے،ہمیں یقین ہے جب ملک کی معیشت سنبھلے گی تو ہماری سیاست بھی سنبھلے گی، اگر ہم نے مل کر وسیع تر ملکی مفاد میں اتفاق رائے کے ساتھ 10 سال کیلئے معاشی پلان نہیں بنایا تو ہم کبھی بھی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل نہیں کرسکیں گے،پی ٹی اذئی ملکی ترقی کے لیے میثاق معیشت کا حصہ بنے .
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ سابقہ حکومت کے اقدامات اور پالیسیوں کے باعث ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ وزارت خزانہ ترقیاتی بجٹ کی قسط جاری نہیں کر سکتی، اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وزارت خزانہ نے کہا ہو کہ ہمارے پاس قسط جاری کرنے کے پیسے نہیں ہیں .
وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ جب سابق وزیر اعظم عمران خان ہماری حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو گویا اپنی حکومت پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں، وہ ذرا اپنی حکومت کے کارناموں پر غور کریں، آج جب پاکستان آئی ایم ایف کے سامنے بیٹھتا ہے تو عالمی مالیاتی ادارہ کہتا ہے کہ ہم حفیظ شیخ اور شوکت ترین کو نہیں جانتے، ہم حکومت پاکستان کو جانتے ہیں جس کے وزرائے خزانہ نے ہمارے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں .
انہوں نے کہا کہ آج پاکستان، آئی ایم ایف کے جس معاہدے کے سامنے کھڑا ہے اس میں عمران خان نے لکھ کر دیا ہے کہ وہ تمام سبسڈیز کو ختم کریں گے اور پیٹرولیم مصنوعات پر مزید ٹیکس بھی عائد کریں گے، یہی وہ بات ہے کہ ان کے وزرا اب کہتے ہیں کہ پیٹرول 300 روپے تک جائے گا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا معاہدہ کیا ہے . انہوںنے کہاکہ ان حالات میں جب گزشتہ حکومت پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کرکے چھوڑ کر گئی اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دباؤ بھی آنا شروع ہوگیا، ان حالات میں اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو دیکھتے ہوئے درآمدات کی حوصلہ افزائی کی گئی جبکہ اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تھی، ان پالیسیوں کے باعث ملک کو غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے .
احسن اقبال نے کہا کہ ہم جب حکومت میں آئے تو ہمیں معلوم تھا کہ ہم کس مشکل چیلنج کو قبول کر رہے ہیں، اس وقت تکلیف دہ حالات ہیں اور ان کا حل بھی بہت تکلیف دہ ہے، ہمارے سامنے ا?پشن تھا کہ ہم اپنی سیاست کو بچائیں یا ملک کو بچائیں، ملک کو بچانا ہماری ترجیح ہے، اگر سیاست کو بچانا ہوتا تو ہم ایک سے 2 ما کے دوران اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کا اعلان کرکے ملک کو ایک اور غیر یقینی صورتحال میں جھونک دیتے، نگراں حکومت کے دوران کوئی ایسی حکومت نہیں ہوتی جو کسی عالمی ادارے سے بات چیت کر سکے، 3 سے 4 ماہ کا بحران پاکستان کی معیشت کو تباہ کن صورتحال سے دوچار کرسکتا تھا .
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو استحکام کی ضرورت تھی، ہم نے ایک مشکل فیصلہ کیا کہ اپنی سیاست کو قربان کریں گے لیکن پاکستان کی معیشت اور اس کے مستقبل کو سنبھالیں گے، ہمیں یقین ہے کہ جب ملک کی معیشت سنبھلے گی تو ہماری سیاست بھی سنبھلے گی، اس وقت سیاست کا وقت نہیں ہے، اس وقت ملک کو ان خطرات سے بچانے کا وقت ہے جو ہمارے ارد گرد منڈلا رہے ہیں .
وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ عمران خان نے ملک کی معیشت تباہ کی اور اب وہ ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، وہ پاکستان کے قومی اداروں کی بنیادوں پر حملہ آور ہیں، عمران خان کے مسلح افواج اور اس ادارے کے حوالے سے جو بیانات ہیں اور جو تحریک انصاف کے ورکرز ہیں، ان کے ذریعے جس طرح کی وہ سوشل میڈیا پر مسلح افواج کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، یہ ہائبرڈ وار کے وہ آلات ہیں جو دشمن ملک کسی ملک کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں .
انہوںنے کہاکہ آج یہ بات ثابت ہوئی کہ ممنوعہ فنڈنگ کے ذریعے عمران خان کس کے ایجنڈے پر پاکستان میں انارکی پھیلا رہے ہیں، جس ملک میں اداروں کے خلاف انارکی پیدا ہوجائے، اس ملک کا نظام اندر سے تباہ او کھوکھلا ہوجاتا ہے، اگر معیشت تباہ ہو تو اس کو کھڑا کیا جاسکتا ہے لیکن جب ادارے اور ان کی ساکھ کو تباہ کردیا جائے تو ان اداروں کے ساتھ ریاست بھی بیٹھ جاتی ہے .
انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی منفی سیاست سے ملک، اس کے اداروں اور اس کے عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کی ہم ان کو اجازت نہیں دیں گے . انہوںنے کہاکہ پاکستان کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 7 ہزار ارب روپے کے قریب ہے، ایف بی آر 7 ہزار ارب روپے کے محصولات اور ٹیکس جمع کرے گا، اس میں سے 58 فیصد صوبوں کو چلا جائے گا، 42 فیصد وفاقی حکومت رکھ سکتی ہے جو 3 ہزار ارب کے قریب بنتا ہے .
وفاقی وزیر نے کہا کہ آج بجٹ میں 4 ہزار ارب قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار ہیں، 18-2017 میں قرضوں کی ادائیگی کا حجم 1500 ارب روپے تھا، 4 چار سال کے دوران یہ حجم 4 ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے، وفاق کے دفاع کا بجٹ 1500 ارب کے قریب ہے، ترقیاتی بجٹ 700 ارب کا ہے، حکومت چلانے کے اخراجات 500 ارب روپے ہے، 530 ارب روپے پینشن کی مد میں جانے ہیں جن میں سے 400 ارب مسلح افواج اور 130 ارب سول اداروں کے ملازمین کو جائیں گے، اس کے علاوہ 12 ارب روپے اسٹیٹ کے اداروں کو حکومت دینے کی پابند ہے، مختلف مد میں دی جانے والی 700 ارب کی سبسڈی ہے .
انہوں نے کہا کہ یہ وہ موٹے موٹے اخراجات ہیں جن کو وفاقی حکومت نے 3 ہزار ارب میں سے پورا کرنا ہے، جب 6 سے 7 ہزار ارب کا خرچہ 3 ہزار ارب میں سے پورا کرنا ہو تو اس کو پورا کرنے کے لیے ہمیں مزید قرضہ لینا ہوگا، ہمیں پاکستان کو قرضوں کی دلدل کے چیلنج سے نکالنے کے لیے وسائل پیدا کرنے ہیں . انہوںنے کہاکہ سابق حکومت کے وزیر خزانہ نے خود اعتراف کیا کہ انہوں نے 80 نہیں بلکہ 76 فیصد ملکی قرضہ لیا، اس وقت حکومت سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں، سبسڈی دینے کے لیے خزانے میں پیسے ہونا ضروری ہیں جبکہ یہاں ہماری حالت یہ ہے کہ آخری سہہ ماہی کے لیے زیرو ریلیز کی گئی ہے، اس لیے وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ اس وقت ملک کی ضرورت میثاق معیشت ہے .
احسن اقبال نے کہا کہ اگر ہم نے مل کر وسیع تر ملکی مفاد میں اتفاق رائے کے ساتھ 10 سال کے لیے معاشی پلان نہیں بنایا تو ہم کبھی بھی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل نہیں کرسکیں گے، اگر ملک کی برآمدات میں 5 سے 10 ارب ڈالر سالانہ اضافہ نہیں ہوگا تو ہم اپنی ترقی کو مستحکم نہیں رکھ سکیں گے، ہمیں سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہے، ویتنام جیسے ہم سے آدھی آبادی والے ملک میں 30 ارب ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہے .
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی پالیسیوں کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنا ہے، اگر ہم نے اپنے وسائل پیدا نہیں کیے تو اذئندہ سال ہمارا ترقیاتی بجٹ مزید کم ہوجائے گا، جب اس طرح سے ہمارا بجٹ کم ہوگا تو ملک میں خودکش بمبار پیدا نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا . انہوںنے کہاکہ اگر ہم نے ملک کو ترقی دینی ہے تو ہمیں اپنے وسائل اور دولت میں اضافہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی کو بھی اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے، بجائے اس کے کہ پی ٹی آئی اپنی ناکامیوں کا ذمے دار پاکستانی فوج اور حکومت کو قرار دے کر ملک میں انتشار پیدا کرنے کی سیاست کرے، وہ اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر مثبت طریقے سے ملک کی ترقی کے لیے قومی میثاق معیشت کا حصہ بنے .
وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، آج ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے اور جو حکومت بھی اس پر عمل کرے، اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے . انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ اپوزیشن اپنے رویے پر غور کرے گی، پنجاب میں عمران خان اسپیکر کے عہدے کو بے توقیر کر رہے ہیں، غیر آئینی اقدامات کرا رہے ہیں، وفاق میں صدر مملکت کے عہدے کو بے توقیر کر رہے ہیں، یہ ان کی ذہنی کیفیت اور حالت کی علامت ہے کہ وہ ایک انارکسٹ ہیں جو آئین پر یقین نہیں رکھتا، اس طرح کی ذہنیت کے ساتھ ریاست کا نظام توڑا نہیں جا سکتا .
انہوںنے کہاکہ ریاست اور آئین نے قائم رہنا ہے، آئین سے ٹکرانے والا پاش پاش ہوجاتا ہے، آئین کی پشت پر عوام اور قومی ادارے کھڑے ہیں، جو بھی آئینی اسکیم سے ٹکرائے گا وہ اپنا سر پھوڑے گا، آمر بھی آئین کو نقصان نہیں پہنچا سکے، ملک کے ساتھ خود کو برباد کرکے رخصت ہوئے . احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ غیر معمولی حالات میں حکومت دل پر پتھر رکھ کر ملک کے مفاد میں مشکل فیصلے کر رہی ہے اور امید کرتا ہوں کہ ملک کی مہنگائی اور غربت کے پیش نظر آئی ایم ایف بھی اس بات کو سمجھے گا کہ اس طرح کی کڑی اور سخت شرائط پر اصرار کرنا نظام کو اصلاح کی جانب لے جانے کا راستہ نہیں ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد ملک کے معاشی نظام میں بہتری آئے گی، ہم پر ذمے داری عائد ہوتی تھی کہ ان حالات میں پاکستان کے معاہدوں کی پاسداری کریں ورنہ ملک کی ساکھ کا مسئلہ درپیش ہوتا .
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی مثال اس ڈرائیور کی ہے جو حادثہ کرکے تماشائیوں میں کھڑا ہو کر کہے کہ حادثہ کیسے ہوا، وہ خود یہ حادثہ کرکے گئے ہیں، ملک کے حالات ان کے غلط فیصلوں اور ان کی ناکام پالیسیوں کے باعث ہیں اور ہم نے گزشتہ 3 سالوں کے دوران جو کہا تھا ان کے بارے میں وہ آج حرب بحرف صحیح ثابت ہو رہا ہے . ان کا کہنا تھا کہ ہماری آئی ایم ایف سے بات چیت چل رہی ہے کہ ہم قوت خرید پر تو پیٹرول بیچ سکتے ہیں لیکن عمران خان کی حکومت جو معاہدہ کرکے گئی جس میں مزید ٹیکس لگانا بھی شامل تھا، اس سے پاکستان کی معیشت پر مزید دباؤ آئے گا، پی ٹی آئی خود اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ کیا معاہدہ آئی ایم ایف سے کرکے گئے اور تمام پاکستانیوں کو وہ معاہدہ پڑھنا چاہیے جس میں تمام سوالات کے جواب موجود ہیں .
روس سے تیل کی درآمدات سے متعلق سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ بھارت اگر روس سے تیل لے رہا ہے تو وہ کافی وقت پہلے سے خرید رہا ہے، ان کے پاس اس فیول کے حساب سے ریفائنریز بھی موجود ہیں، ہمارے ساتھ عالمی پابندیوں کے ساتھ ساتھ ریفائنزیز کا ایشو بھی ہے، بدقسمتی سے پاکستان کے پاس وقت بہت محدود ہے لیکن جو فیصلے ہم نے کیے ہیں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے .
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز وزیراعظم، پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت کے منصوبے رشکئی انڈسٹریل زون گئے، ان کا دورہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اپنی سیاست کو بھلا کر پاکستان کے مفاد میں کام کرنا ہے، انہوں نے وہاں کہا کہ اس منصوبے کو کامیاب کرنے کے لیے جو بھی مدد چاہیے ہوگی وفاقی حکومت وہ مدد فراہم کرے گی . ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں نارووال اسپورٹس کمپلکس صرف اس لیے تباہ کردیا گیا کیونکہ اس پر میرا نام تھا، یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ اس پر جو سوا 2 ارب روپے خرچ ہوئے وہ ڈوب جائیں گے، یہاں سے کھلاڑی عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کریں گے .