مطیع اللہ مطیع
بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چلغوزے کے جنگل میں لگنے والی آگ سے چھ لاکھ سے زیادہ درختوں کو نقصان پہنچا ہے
ایک دہائی کے دوران پاکستان میں تین ہزار ایکڑ سے زیادہ جنگلات میں کمی واقع ہوئی ہے .
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او)کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق آگ لگنے سے پہنچنے والے نقصان کو پورا کرنے میں تقریبا 100 سال لگیں گے .
ایف اے او کے کوارڈینیٹر یحییٰ موسی خیل کے مطابق ابتدائی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنگل کا 45 سے 55 مربع کلومیٹر کا رقبہ آگ کی لپیٹ میں آیا جس سے ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ درختوں کو نقصان پہنچا ہے اس جگہ پر دوبارہ درخت اگانے اور انہیں پیداوار کی حد تک پہنچانے میں 100 سال کا عرصہ لگے گاایف اے او کی پچھلی رپورٹ کے مطابق سال 2020 اور 2021میں ان جنگلات سے چھ لاکھ 75 ہزار میٹرک ٹن چلغوزہ پیدا ہوا تھا جس سے پونے تین ارب روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے ایف اے او کے مطابق ملک بھر میں چلغوزے کی پیداوار کا 75 فیصد حصہ شیرانی کے جنگلات سے حاصل ہوتا تھا . رپورٹ کے مطابق 9، 12 اور 16 مئی کو ضلع شیرانی میں تین مختلف مقامات پر آگ لگی تھی جس پر ایرانی ساختہ ایلویشن جہاز کے ذریعے قابو پالیا گیاتھا آگ لگنے کی وجہ سے اگلے سال چلغوزے کی پیداوار متاثر ہو گی اور قیمتوں میں بھی مزید اضافہ ممکن ہے جنگلات کی مانیٹرنگ کرنے والی بین الاقوامی تنظیم گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق 2011سے 2021تک کی دہائی میں پاکستان میں تین ہزار ایکڑ سے زیادہ جنگلات میں کمی واقع ہوئی ہے . ان میںسے زیادہ تر جنگلات بلوچستان ،خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں ہیں . گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق پاکستان میں 31 مئی 2021 سے لے کر 23 مئی 2022 تک آگ کے 1921 واقعات رپورٹ ہوئے . یہ تنظیم بھی اتنی زیادہ تعداد میں آگ لگنے کے واقعات کے حوالے سے کافی پریشان ہے . اس تنظیم کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سنہ 2000 سے 2010 کی دہائی کے مقابلے میں گذشتہ دہائی میں جنگل کا آدھا ایکڑ ختم ہو گیا ہے . اور سب سے زیادہ نقصان ژوب اور نصیر آباد میں ہوا . اس کے علاوہ آگ کے 25 واقعات پیش آئے جن میں سے 28 فیصد ہائی کانفیڈنس الرٹ تھے یعنی ریڈ فلیگ جس پر اگلے ایک یا دو دن میں ایکشن لینا ضروری ہے ضلع شیرانی میں کئی کلومیٹر پر محیط جنگلات میں زیتون، پلوس اور چلغوزوں کے لاکھوں درخت موجود ہیں اور آتشزدگی کی وجہ سے یہاں موجود حیوانات کو خطرات لاحق ہیں . ایک اندازے کے مطابق شیرانی جنگل میں دس لاکھ چلغوزے کے درخت ہیں اور ایک درخت کی مالیت پچیس سے تیس ہزار روپے ہے . ان درختوں سے پونے سات سو میٹرک ٹن چلغوزے سالانہ ہوتے تھے جن کی ایک اندازے کے مطابق مالیت دو اعشاریہ چھ بلین ڈالر ہے . یہ چلغوزے چین، دبئی اور فرانس بھیجے جاتے ہیں . آگ سے ہونے والے نقصان کا ایک تخمینہ کم از کم پانچ کروڑ روپے ہے . لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہے . جو درخت آگ میں جل گئے ان کے دوبارہ اگنے میں پچاس سال لگیں گے . موسمی تبدیلی نے موسم کو کتنا تبدیل کیا ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2020 میں ژوب کا درجہ حرارت 33 ڈگری سینٹی گریڈ تھا لیکن گذشتہ سال یہاں درجہ حرارت بڑھ کر 43 ڈگری تک چلا گیا . آج کل کے شدید موسمی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہو گا . پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال 23 مئی سے نو جون تک جنگلات میں آگ کے 210 واقعات پیش آئے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ موسمی تبدیلی ہے . وقت آ گیا ہے کہ حکومت موسمی تبدیلی اور اس کے نتائج کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھائے اور ایسے اقدامات کرے جس سے ماحول اور انسان دونوں ہی کو محفوظ رکھا جائے . تازہ رپورٹوں سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی سے روزگار اور صحت دونوں ہی پر اثر پڑے گا . اس وقت بھی 39 فیصد آبادی کثیر جہتی غربت میں مبتلا ہے اور موسمی تبدیلی کے باعث روزگار جانے سے ان کی زندگی اور صحت پر بہت زیادہ اثر پڑے گاضلع شیرانی میں مختلف مقامات پر لگنے والے آگ نے چلغوزوں اور زیتون کے ہزاروں درخت جلا کر راکھ کر دیے جس سے سینکڑوں خاندانوں کا روزگار بھی متاثر ہوا ہے .
. .