ارکان اسمبلی پارٹی سربراہ کی ہدایات کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں یا نہیں،الیکشن ایکٹ نے مسئلہ ہی حل کر دیا

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)الیکشن ایکٹ 2017 ء کے مطابق ارکان اسمبلی پارٹی سربراہ کی ہدایات کو رد نہیں کر سکتے,ایکٹ میں کی گئی ترامیم اور سپریم کورٹ کی وضاحت کے بعد پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ بھی شمار نہیں ہوسکتا . الیکشن ایکٹ کے مطابق پارٹی

اور پارلیمانی پارٹی کے ممبران پارٹی ہیڈ کے احکامات کے پابند ہیں اور خلاف ورزی کرنے والے ڈی سیٹ ہو سکتے ہیں .

آئین کا آرٹیکلA. 63پارٹی سربراہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نوٹس دینے کا اختیار دیتا ہے . واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے 25 ارکان بھی اسی قانون کے تحت ڈی سیٹ کیے گئے تھے 2018 میں سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کی کئی شقوں کی وضاحت بھی کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے نقات نمبر 40،41 42 اور 43 کے مطابق لفظ”پارٹی سربراہ“ کی تعریف آئین کے آر ٹیکل 63A میں کی گئی ہے، جس کا مطلب کسی بھی شخص کو جسے کسی بھی نام سے پکارا جائے، جو کہ پارٹی قرار دے گی . پارٹی سربراہ کئی اہم ذمہ داریاں نبھاتا ہے، جن میں بہت سے امور شامل ہیں تاہم صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے، اس میں سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا قیام، سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کی تعیناتی، پارٹی کے سینٹرل پارلیمانی بورڈ کی سربراہی،پارلیمانی جماعت کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے اور دیگر اہم ذمہ داریاں شامل ہیں . یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی جماعت کا صدر ہی دراصل پورے ادارے کا سربراہ ہوتا ہے . وہ تمام فیصلوں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہیاور اس عہدے کو تفویض کردہ تما م اختیارات کا استعمال کرتا ہے تاکہ ادارہ کے تمام امور آئین اور آئین کے تحت بنائے گئے قوانین کے تحت انجام پائیں . الیکشن ایکٹ،2017کے سیکشن 209کے

تحت سرٹیفکیشن جسیکمیشن کو جمع کرانا ہوگا، جو کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق ہوگا جس پر اس عوامی عہدیدار کے دستخط ہوں گے جسے پارٹی سربراہ نے مجاز بنایا ہوگا . الیکشن ایکٹ،2017کے سیکشن 210کے تحت فنڈز کے ذرائع سے متعلق معلومات جو کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی رپورٹ کی صورت میں ہوگی، کمیشن کے پاس جمع کرانا ہوگی، جو پارٹی سربراہ کی جانب سے متعین کردہ عوامی عہدیدار کو جمع کرانا ہوگی . الیکشن

ایکٹ،2017کے سیکشن 216کے تحت عام انتخابات کے حوالے سے اپنی مرضی کے نشان کے حصول کے لیے درخواست پر پارٹی سربراہ دستخط کرے گا . 41 . پارٹی سربراہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، جب بھی ارکان پارلیمنٹ کو نااہل کرنے کے لیے طریقہ کار کے حوالے سے معاونت کی ضرورت ہوگی، جو کہ کسی خرابی کی بنیاد پر ہوگی تو پارٹی سربراہ کوپارٹی میں اپنے طاقتور عہدے کے باعث فیصلہ کن کردار دیا گیا ہے، جس کا مقصد

اس کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرین ا?ئین اور پارٹی پالیسی کے مطابق عمل پیرا ہوں جو کہ پارٹی سربراہ کی ایما پر یا اس کے ذریعے بنائی گئی ہوں . جس خرابی کا عدالت نے ادراک کیا وہ ان پر(پارلیمنٹیرین)جواعتماد ووٹروں نے کیا ہے، اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور نمائندوں کو گمراہ کیا گیا ہے . جس کا پس منظر یہ ہے کہ پوری کائنات کا مالک صرف اللہ عزوجل ہیاور جو اختیارات پاکستان کی عوام استعمال

کرتی ہے وہ اس کی مقرر کردہ حدود کے تحت ایک مقدس امانت ہے . 43 . آئین کے ا?رٹیکل 63 اے کی شقوں کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا ایک رکن اگر پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوتاہے یا کسی اور پارلیمانی پارٹی میں شامل ہوتا ہے یا پارلیمانی پارٹی کی کسی ہدایت سے انحراف کرتے ہوئے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخاب‘ اعتماد یا عدم اعتماد‘ منی بل یا کسی آئینی (ترمیم) بل میں ووٹ دیتا یا غیر حاضر رہتا ہے تو پارٹی سربراہ تحریری طور پر اس کے منحرف ہونے کا اعلامیہ جاری کر سکتا ہے اس صورت میں پارٹی سربراہ اس اعلامیے کی کاپی سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینٹ ا?ف پاکستان یا صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر کو اس رکن کی حیثیت کے مطابق بھیجے گا جبکہ چیف الیکشن کمشنر کو بھی کاپی بھیجی جائے گی .

. .

متعلقہ خبریں