زرمینہ خپلواک
ہمارے معاشرے میں یہ بات کی جاتی ہے کہ عورت قدرتی طور پر کمزور پیدا ہوتی ہے، میں اس بات سے انکار کرتی ہوں او رمیں سمجھتی ہوں کہ عورت کو محکوم اور مرد کو حاکم ہمارے معاشرے کا رویہ اورتربیت بناتی ہے،اگرتربیت برابر ی کی بنیاد پرہوگی تو کوئی مردعورت کو غلام نہیں سمجھے گا اورنہ ہی اپنا فیصلہ عورت پر مسلط کرے گا
اگر ہم تاریخ کے صفات میں جا کے دیکھیں تو دنیا میں دوقسم کے نظام ہیں، ایک مدرسری نظام ہے جس میں عورت گھر کی سربراہ ہواکرتی تھی اور دوسرا پدر سری نظام ہے جس میں مرد گھر کاسربراہ ہوتا ہے جو آج بھی چل رہا ہے
مدرسری کا نظام کاخاتمہ اس وقت ہونے لگا جب زرعی نظام شروع ہوا، وارث اور میراث اورجائیداد بنانے کی فکر مرد کوہونے لگی،تب مرد نے عورت کواپنا غلام سمجھنا شروع کیا اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا
اسلامی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جس سے ثابت ہو تا ہے کہ عورت کوتعلیم، سیاست اورروزگار کی آزادی دی گئی ہے
جب حضرت محمدﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو پہلا حرف اقراء کا تھا جس کا مطلب ہے پڑھ، اس آیات میں یہ نہیں ہے کہ صرف عورت پڑھے یا صرف مرد پڑھے
ایک اورجملہ ہم سنتے ہیں کہ علم حاصل کرو چاہیے اس کے لئے تہمیں چین ہی جانا پڑے
ہمارے سامنے ایک مثال حضرت خدیجہ ؓ کی ہے جو تجارت کیا کرتی تھیں
اسلام نے عورت کو قید کرنے رکھنے کا نہیں کہا ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی قانون میں یہ بات موجود ہے، پھر ہم کیوں عورت کو قید رکھے ہوئے ہیں؟
19ویں صدی کی ابتداء میں برٹش کے برصغیر یا سنٹرل ایشیا میں آنے کے بعد پدر سری نظام کے اثرات ہم پرکافی زیادہ پڑنے لگے، برٹش کی یہ کوشش تھی کہ وہ پشتون افغان سرزمین کوپسماندہ رکھے اور اس مشن میں برٹش کواس وقت کامیابی ملی جب پشتونوں نے بچیوں اور خواتین کی تعلیم پرپابندی لگادی
یہاں مذہب کارڈ کے ذریعے اس سوچ کو آگے پھیلا یا گیا اور آج تک جاری ہے، اس سوچ کے اثرت کے پشتون معاشرے پر اس قدرپڑے ہیں کہ آج ایک باشعور اورتعلیم یافتہ خاتون بھی اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے ڈرتی ہے کہ کہیں پدرسری نظام پر اس پر بے حیائی کا ٹھپہ نہ لگائے
میں نے شروع میں لکھا ہے کہ تربیت ہی عورت کو محکوم اورمرد کو حاکم بناتی ہے، جب ایک گھر میں بچہ یا بچی پیدا ہوتی ہے تو ہم غورکریں تو وہ دو تین سال تک صرف دیکھتا یا دیکھتی ہے،سنتا ہے یاسنتی ہے، اس دورا ن بچے کو ہمارے رویہ سکھاتا ہے، جب باپ، شوہر یا بھائی عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے،حکم چلاتا ہے یا حق تلفی کرتا ہے، ایک لڑکے کواچھے تعلیمی ادارے میں پڑھایا جاتا ہے، بچی کو عام ادارے میں داخل کیا جاتا ہے، لڑکے کی خاطرداری کی جاتی ہے، بہن بھائی دونوں باہرسے آتے ہیں تو بہن بھائی کے سامنے پانی کا گلاس رکھتی ہے، یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بچوں کے ذہنوں میں نقش ہوجاتی ہیں،اسی وقت سے بچہ خود کو حاکم اور بچی محکوم سمجھنے لگ جاتی ہے، جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو یہی سوچ ان میں حاکمیت اورمحکومیت کا احساس پیدا کرتی ہے ، عورت کوئی بھی کام کرنے سے پہلے مرد کی اجازت کی منتظر ہوتی ہے، مرد اجازت دے گا تو وہ کام کرے گی ورنہ اپنے ارمان کا گلہ گھونٹ دیتی ہے
جب عورت اپنے حق کیلئے قانون کا درواز کھٹکھٹاتی ہے تو اس عورت کو پدرسری نظام بے حیاکا لقب دیتا ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ اپنے حقوق کیلئے بات کرنیوالی عورت کو عورت ہی غلط سمجھتی ہے کیونکہ وہ اپنے حق سے بے خبر ہوتی ہے، اگر کوئی عورت اپنے حقوق سے باخبر بھی ہو تو وہ ڈر سے بات نہیں کرتی ہے کیونکہ وہ اپنے حقوق کیلئے کھڑے ہونے کا جرم سمجھتی ہے،ایک ماں جو ایک بچے کو جنم دیتی ہے،دن رات پرورش کرتی ہے وہ بھی اپنے بچے پر اتنا حق نہیں رکھتی جتنا اس پر باپ حق رکھتا ہے
ہمارے ہاں خواتین کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے ہمارے سامنے ہی ہمارا باشعور اورتعلیم یافتہ طبقہ بھی عورت کو بنیادی حقوق سے محروم رکھتا چلا آرہا ہے،اگر کسی تعلیم یافتہ گھرانے میں کوئی مرد نوکری کررہا ہو یا کرنے کرنے کی خواہش رکھتا ہو تو اسی گھر میں لڑکی کو نوکری کرنے کاحق نہیں دیا جاتا ہے، مرد سیاست کررہا ہو تو اس گھر میں موجود خواتین کوسیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی . پدرسری نظام کا ایک اور عمل بھی عورت کی سوچ کا غلامانہ رکھنے میں ایک ہم کردار اداکرتا ہے کہ خواتین کواپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ کرنے کا حق بھی نہیں ہوتا، جب ایک عورت کو اپنی مرضی سے جینے کاحق نہیں دیا جاتا،اسے غلام رکھا جاتا ہے تو توسوچیں ایک نسل اور ایک قوم کیسے آزاد بنے گی جب ا س نسل کی پرورش کرنیوالی ہی غلام ہو
ہر لمحے عورت کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم کمزور ہو، ہمارے ہاں اگرعورت کی عزت کی جاتی ہے تو وہ صرف اس لئے کی جاتی ہے کیونکہ وہ ایک مرد سے کمزور ہوتی ہے
عورت کی غلامانہ سوچ اس وقت بدل سکتی ہے جب ایک عورت کی عزت اس لئے کی جائے کہ اس کا بھی وہی حق ہے جو مردوں کا ہے، عورت کو حقوق کو اس کا بنیادی حق سمجھ کردئیے جائیں کیونکہ اسلام نے بھی ان کو دیا ہے
مرد اور عورت کی تربیت ایک طریقے سے کرنی ہوگی تاکہ عورت کو ہرلمحے مرد کی اجازت کی ضرورت نہ پڑے اور اس کو اپنی مرضی سے زندگی گزارے اور معیاری تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے خود کرسکے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاشرے میں جز ا اور سز ا کاعمل سب کیلئے ایک جیسا ہونا چاہیے، جب عورت آزاد زندگی جئے گی تو نئی نسل خود مختار بن سکتی ہے
.