اسلام آباد(قدرت روزنامہ)پاکستان ریلویز کے سینئر افسر نے پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے اراکین کے 'خراب رویے' کے خلاف احتجاجاً عہدے سے استعفیٰ دے دیا .
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مستعفی افسر نے الزام لگایا کہ اراکین اسمبلی کے خراب رویے کی وجہ اس کی جانب سے ان کے غیر قانونی احکامات کی پیروی نہ کرنا تھا جب کہ افسر کے خلاف تحریک پیش کرنے والے ایم پی اے (وزیر مائنز اینڈ منرل پنجاب) نے ان الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا .
افسر نے ڈان کو بتایا کہ وہ 2001 میں پاکستان ریلوے میں تعیناتی کے بعد سے ایسے کرپٹ مافیا سے لڑ کر پریشان ہوگیا تھا، اس وقت چیئرمین/وفاقی سیکریٹری ریلوے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے والے ریلوے گروپ گریڈ 19 کے افسر طارق لطیف نے کہا کہ میں نے کرپٹ مافیا کے سامنے جھکنے کے بجائے آخر کار عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا .
پاکستان ریلوے سکھر اور لاہور ڈویژن کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر بھی فرائض انجام دینے والے افسر طارق لطیف نے کہا کہ ایک حالیہ اجلاس میں پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے چیئرمین اور تقریباً 40 ایم پی ایز نے مجھے کتنی تذلیل کا نشانہ بنایا آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، اس کے بعد میرے پاس مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا .
یکم اکتوبر کو چیئرمین پاکستان ریلوے کو جمع کرائے گئے استعفیٰ کے مطابق طارق لطیف نے کہا کہ انہوں نے 2001 میں سی ایس ایس امتحانات پاس کرنے کے بعد پاکستان ریلوے میں شمولیت اختیار کی اور پوری لگن اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق محکمے کی خدمت کرنے کی کوشش کی .
انہوں نے کہا کہ وہ ملک میں سرگرم کرپٹ مافیا کا شکار ہوئے ہیں .
پی آر افسر نے اپنے استعفے میں کہا کہ 11 مارچ 2022 کو فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے رکن پنجاب اسمبلی لطیف نذر گجر کی جانب سے پیش کی گئی تحریک استحقاق پر پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی نے انہیں بلایا جب کہ نذیر گجر مجھے بار بار فون کر کے ٹرانسفر/ پوسٹنگ کا حکم دے رہے تھے اور مجھے ریلوے کی زمین پر تجاوزات نہ روکنے کا حکم دے رہے تھے .
طارق لطیف نے کہا کہ کمیٹی کی کارروائی کے آغاز پر میرے خلاف چیئرمین اور ایم پی اے نے بدتمیز، غنڈہ، بدمعاش کے الفاظ استعمال کیے، تاہم جب انہوں نے تین مرتبہ بولنے کی اجازت طلب کی تو چیئرمین اور اراکین نے گالی گلوچ کی .
صوبائی وزیر مائنز اینڈ منرلز نے کہا کہ رواں سال مارچ میں انہوں نے ریلوے کالونی فیصل آباد کے رہائشیوں کو درپیش مختلف مسائل کے حل کے لیے اس وقت کے ڈی ایس لاہور طارق لطیف سے رابطہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، رہائشی میرے ووٹر ہیں وہ میرے پاس آتے تھے اور مجھ سے ان مسائل کو حل کرنے کی درخواست کی تھی .
صوبائی وزیر نے دعویٰ کیا کہ میں نے افسر کو ان کے موبائل نمبر پر کال کی لیکن ان کے عملے نے سرکاری لینڈ لائن نمبر پر رابطہ کرنے کو کہا، جب میں نے ایسا کیا تو بھی بات نہیں کی گئی .
انہوں نے کہا کہ طارق لطیف کے تکبر نے انہیں پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی میں تحریک پیش کرنے پر مجبور کیا .
ان کا کہنا تھا کہ طارق لطیف مارچ کے مہینے میں کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور الزامات سنے بغیر ہی غصے میں آگئے اور کمیٹی کے اختیارات کو چیلنج کیا، سی ای او ریلوے نے بھی انہیں ایسا کرنے سے روکا لیکن وہ اجلاس چھوڑ کر چلے گئے .
صوبائی وزیر نے کہا کہ پاکستان ریلوے کی انتظامیہ نے ان کا تبادلہ کردیا، بعد میں انہیں کمیٹی نے جمعرات کے روز دوبارہ طلب کیا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے، جمعہ کے روز وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے، میں وہاں نہیں تھا لیکن میں نے سنا کہ افسر نے دوبارہ وہاں کچھ غلط برتاؤ کیا .
صوبائی وزیر نے افسر کو نفسیاتی مریض قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی ان سے تبادلے کے لیے نہیں کہا .
. .