بہت ہوگیا اب پاکستان پر الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر نہ ڈالی جائے
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب امریکا کی جانب سے افغانستان میں آپریشن شروع کیا گیا تو ہم سے مشاورت نہیں کی گئی، ہمیں اپنے علاقے اور لوگوں کو محفوظ بنانے کے لیے تردد کرنا پڑا، ہماری قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور ہمیں جواباً ڈو مور کا طعنہ دیا جاتا رہا، جب ہم نے خلوص نیت کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے . وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم دنیا کو بتاتے رہے کہ جو حکومت افغانستان پر مسلط کی گئی ہے اسے سیاسی حمایت حاصل نہیں، وہاں کرپشن اور ناکام طرز حکمرانی کا دور دورہ ہے مگر کسی نے ہماری بات پر کان نہیں دھرے، جب دوحا میں ایک سال تک اشرف غنی کی سنی جاتی رہی جو بین الافغان مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا تو کیا اس کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟انہوں نے کہا کہ ہم کہتے رہے کہ مذاکرات اور انخلاء کے عمل کو ساتھ ساتھ چلتے رہنا چاہیے لیکن اچانک انخلاء کا فیصلہ ہماری رائے لیے بغیر کیا گیا، اب جو عالمی برادری کو چیلنج درپیش ہے وہ کابل سے ان کے شہریوں کے محفوظ انخلاء کا ہے، ہم اس حوالے سے بھی مثبت اور تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں . . .