بلوچستان ،13ملین ایکڑ فٹ بارش کا 63 فیصد پانی ضائع ہوتا ہے۔

 

مطیع اللہ مطیع
جولائی اور اگست کے مہینوں میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے قبل ہنہ اوڑک کوجانے والی سڑک کنارے باغات سیب،آلوبخارا اور چیری سے لدے ہوا کرتے تھے . اب یہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے .

سڑک کنارے باغات کومکمل یا جزوی طورپر نقصان اس وقت پہنچا کہ جب سیلابی ریلہ ان باغات کو بہا لے گیا . اس سڑک سے گزرتے وقت اب ہمیں صرف جڑ سے اکھڑے ہوئے درخت نظر آتے ہیں سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے یہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آیا کرتی تھی لیکن اب یہ تعداد کافی کم ہوچکی ہے علاقے کی رونقیں ماند پڑھ چکی .
ہنہ اوڑک کے دیگر افراد کی طرح ثناء اللہ کا باغ بھی سیلابی ریلے سے اس قدر متاثر ہوا کہ اب ان کے باغ کی جگہ خالی میدان نے لے رکھی ہے . ہنہ اوڑک میں اکثر افراد کا گزربسر باغات سے حاصل شدہ آمدنی سے ہوتاہے . 40ہزار فٹ پرمحیط باغ میںثناء اللہ نے50درخت یہ سوچ کر لگائے گئے تھے کہ ایک روز انہیں اس باغ سے آمدنی حاصل ہوگی لیکن ایسا نہ ہوسکا .
پانی کی کمی کی وجہ سے ثنا اللہ کے باغ میں لگے درختوں کو بڑھنے میں اوسطا وقت سے زیادہ عرصہ لگا جب یہ درخت پھل دینے کے قریب پہنچے تو 26اگست کے روز ان کے باغ میں سے گزرنے والے سیلابی ریلوں نے تمام درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر بہا لے گئے . ''میں گزشتہ15سالوں سے باغ کی نگرانی کرتا رہا لیکن چند ہی لمحوں میں میری سالوں کی محنت ضائع ہوگئی '' .
چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گری اس وادی میں بارشوں کا پانی سالہاسال بہتا رہتاہے . اس علاقے میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کیلئے ایک ولی تنگی ڈیم موجود ہے . ماہرین آبپاشی کے مطابق ہنہ اوڑک میں چیک اور ڈیلے ڈیمز بنائے گئے ہوتے توباغات کونقصان سے بچایا جاسکتاتھا .
پاکستان کوان دنوں شدید ماحولیاتی تبدیلی کاسامنا کرناپڑرہاہے عالمی ادارہ جرمن واچ کی رپورٹ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021ء کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی ٹاپ 10 فہرست میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے . بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ پسماندہ ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بھی قدرے زیادہ ہیں . محکمہ زراعت کی رپورٹ کے مطابق رواں برس جولائی تا اگست کے دوران ہونے والی غیر معمولی مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں صوبے کے 36میں سے 30اضلاع متاثر ہوئے ہیں . 3لاکھ 3ہزار 620ہیکٹرز پر کھڑی فصلیںو باغات کونقصان پہنچاہے محکمہ آبپاشی کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں کل 1020چھوٹے بڑے ڈیمز ہیںجن میںسے120 ڈیمز شدیدبارشوں سے متاثر ہوئے ہیںاور27ڈیمز ایسے ہیں جوکہ ٹوٹ گئے .
سیلابی ریلوں کے بعد زرعی علاقوں میں زمینی کٹائو کی وجہ سے اب اراضی قابل کاشت نہیں رہی . ثنا اللہ کے باغ کو بھی زمینی کٹائو کاسامنا کرنا پڑرہاہے .
100ڈیمز منصوبہ :49ڈیمز کی تعمیر مکمل


بلوچستان100ڈیمز پروجیکٹ کے ڈائریکٹر کلیم اللہ بازئی کہتے ہیں کہ پانی کی کمی کو دور کرنے کیلئے وفاقی حکومت نے 2008کو بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 100ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے آغاز کیاتھا جسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے . پہلے مرحلے میں 2467ملین کی لاگت سے20 ڈیمز ،دوسرے مرحلے میں 4647ملین کی لاگت سے24 ڈیمز،تیسرے مرحلے میں8867ملین کی لاگت سے 20 ڈیمز ،چوتھے مرحلے میں13512ملین کی لاگت سے 23ڈیمز جبکہ پانچویں مرحلے میں11ڈیمز کی تعمیر کی رپورٹ مکمل کرلی گئی ہے پہلے اور دوسرے فیز کے تحت اب تک49ڈیمز کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے جبکہ تیسرے اور چوتھے مرحلے میں ڈیمز کی تعمیر2024 ء تک مکمل ہونی ہے .
وہ مزید بتاتے ہیں کہ سیلابی ریلوں اوربارشوں کے باعث100ڈیمز پروجیکٹ کے تحت بننے والے 9ڈیمز کونقصان پہنچاہے جن کی وجوہات سپل ویز ٹوٹنے ،بڑے پیمانے پر سیلابی پانی کے بہائو،اخراج کی حد سے زیادہ پانی آنا شامل ہیں حالیہ مون سون بارشوں سے جن ڈیموں کو نقصان پہنچا پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی ہدایت پر تمام ڈیموں کی نظر ثانی رپورٹ تیار کرکے وفاقی حکومت کو بھیجیں گے .
کلیم اللہ بازئی کے مطابق بلوچستان میں بارشوں سے 13ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے صرف 37فیصد ڈیمز کے ذریعے محفوظ کیا جاسکا .
ڈیمز کونقصان پہنچنے کی وجوہات؟
100ڈیمز پروجیکٹ میں بطور ڈیم انجینئر کام کرنے والے انجینئر عالمگیر خان نے ڈیمز کونقصان پہنچنے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں پانی کا بہائو زیادہ ہونے کی وجہ سے چند ڈیمز کونقصان پہنچا . غیر معیاری میٹریل کااستعمال بھی ڈیمز کونقصان پہنچنے کا سبب بنتاہے . جہاں ڈیمز کی تعمیر ہوتی ہے وہاں فیزبیلٹی رپورٹ میں دی گئی مٹی کا نہ ملنابھی ڈیم کے ٹوٹنے کا سبب بنتاہے .
''بلوچستان میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے مقامی سطح پر کنسلٹنٹس ہوں تو بہترطریقے سے ڈیمز کی ڈیزائننگ کرسکتے ہیں صوبے سے باہر کے کنسلٹنٹس مقامی علاقوں کے جغرافیہ کا اکثرعلم نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ڈیم کی تعمیر کے دوران غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں جوکہ آنے والے وقتوںمیں ڈیم کو نقصان پہنچاسکتی ہیں . ''
وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ڈیمز ٹوٹنے کی وجوہات میںغیر موضوع ڈیزائن وسائٹ سلیکشن ،غیرمعیاری میٹریل ،کنسلٹنسی (مانیٹرنگ)،سیاسی مداخلت اور کمیونٹی دبائو شامل ہے .
عالمگیر خان کہتے ہیں کہ وقتاََ فوقتاََ ڈیمز کومرمت کی ضرورت پڑسکتی ہے لیکن دیکھ بھال کیلئے حکومت رقم مختص نہیں کرتی اگر کو ڈیم کو نقصان پہنچ جائے تو اس کی بروقت مرمت ممکن نہیں ہوتی .
محکمہ واسا کے ہائیڈروجیالوجسٹ حمید اللہ کے مطابق بیسن یا سب بیسن کے ریچارج کیلئے ڈیمز انتہائی اہم ہیں . ڈیلے ایکشن ڈیم ،سٹوریج ڈیم اور چیک ڈیمز ریچارج کیلئے استعمال ہوتے ہیں . کوئٹہ ،پشین ،قلات اور مستونگ بلوچستان کے وہ اضلاع ہے جو اونچائی پر واقع ہیں ان اضلاع کا بارش کے علاوہ ریچارج کا کوئی ذریعہ نہیں .
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سالانہ 235ملی میٹر بارش ہوتی ہے آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے لیکن ریچار کے ذرائع نہ ہونے اورزمین کی سطح کنکرٹ پر پانی بہنے کی وجہ سے پانی ضائع ہوجاتاہے .
بلوچستان:جولائی اور آگست میں 300فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں
پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان میں جولائی کے مہینے میں معمول سے 180 فیصد جبکہ بلوچستان میں 450فیصد زیادہ بارشیں ہوئی اسی طرح آگست میں ملک میں243 فیصد جبکہ بلوچستان میں 590فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں بلوچستان میں عام طورپر 22ملی میٹر اور زیادہ سے زیادہ 154ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں .
بارشوں سے زمینداروں کے300ارب روپے کے نقصانات
زمیندار ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری حاجی عبدالرحمن بازئی کے باغات اورفصلات بھی حال ہی میں مون سون بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ زراعت کے شعبہ کی بہتری کیلئے پانی ضروری لیکن مون سون بارشوں کا پانی ضائع ہوگیاڈیمز کی تعمیر ہوتی تو نہ صرف پانی ضائع ہونے سے بچ جاتابلکہ آئندہ سال بھی زمینداروں کیلئے خوشحال ہوتاڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے اندازا 20لاکھ کیوسک پانی ضائع ہوگیاہے سابقہ ادوارمیں بلوچستان میں 100ڈیمز کی تعمیر کے منصوبے کاآغاز ہوا ہے لیکن اب بھی اس پر کام ہونا باقی ہے 100ڈیمز کے منصوبے میں سست روی یہاں سیلاب سے تباہی کی ایک بڑی وجہ بھی ہوسکتی ہے .
حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بڑے پیمانے پر زرعی زمین تباہ ہو گئی ہے جسے زمینداروں کو300ارب روپے کامجموعی نقصان ہواہے جو فصلات بچ گئے ہیں وہ قومی شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے سڑرہے ہیں اور حکومت ہمسایہ ممالک سے پھل وسبزی درآمد کررہی ہے جو یہاں کے زمینداروں کے معاشی قتل کے مترادف ہے کم از کم بچ جانے والی پھل وسبزیوں کو ملکی منڈی تک رسائی تو دیتے تاکہ زمینداروں کے نقصانات کم از کم ہوتے . بلوچستان کے زمینداروں نے مشکلات مدنظررکھتے ہوئے دسمبر 2023 تک بجلی کے بل ادا نہ کرنے کااعلان کیاہے .
صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان حکومت اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے سیلاب متاثرین کی مدد کررہی ہے لیکن ان نقصانات کاازالہ مرکزی حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں مرکزی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 10ارب روپے ناکافی ہیں .
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)کے مطابق حالیہ مون سون بارشوں سے پاکستان میں 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں جس میں 1735 افراد جاں بحق 12 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں اور 22 لاکھ مکانات کو نقصان اور 13 ہزار کلو میٹر سڑکیں بہہ گئیں .
وزیراعلی بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے سیلاب سے ٹوٹنے والے ڈیمز کی تحقیقات کااعلان کیاتھا اوروزیراعلی تحقیقاتی ٹیم کے چیئرمین عبدالصبور کاکڑ کی قیادت میں انکوائری کمیٹی نے تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ پیش کی رپورٹ میں انکشاف ہواکہ ٹوٹے ڈیمز کی وجوہات میں ڈیزائن ،موضوع سائٹ سلیکشن ،معیار کنسلٹنسی (مانیٹرنگ)،سیاسی مداخلت اور کمیونٹی دبائو کی وجہ سے نقصانات ہوئے ہیں .

. .

متعلقہ خبریں