کون ہوگا پاک فوج کا نیا سپہ سالار، GHQ نے سمری بھیج دی، پینل میں سنیارٹی کے لحاظ سے 6 سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز عاصم منیر، ساحر شمشاد، اظہر عباس، نعمان محمود، فیض حمید اور محمد عامر شامل
کراچی (قدرت روزنامہ) کون ہوگا پاک فوج کا سپاہ سالار۔نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے حکومت کو جی ایچ کیو سے سمری موصول ہوگئی ہے۔ سمری میں سینئر موسٹ چھ لیفٹیننٹ جنرلز کے نام آئے ہیں۔جس میں سب سے پہلے نام لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا ہے، پھر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ہیں، پھر لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس ہیں، پھر لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود ہیں، پھر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور پھر لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر ہیں، اسی سینیارٹی کے ساتھ یہ نام وزیراعظم آفس کے پاس آئے ہیں۔
یہ بات کا انکشاف سینئر صحافی انصار عباسی نے جیو نیوز کے پروگرام ’’ آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ‘‘ میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل پرسکون انداز ہو جائیگی۔ دریں اثناء پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) نے آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے سمری وزارت دفاع کو بھیج دی۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ جی ایچ کیو نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کیلئے سمری وزارت دفاع کو بھیج دی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سمری میں 6 سینئر لیفٹیننٹ جنرلز کے نام شامل ہیں جو وزارت دفاع کو بھیجے گئے ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انصار عباسی کا مزید کہنا تھا کہ میری یہی انفارمیشن ہے کہ پینل موو کردیا گیا تھا اور سمری پی ایم آفس نے وصول کرلی ہے، سمری میں سینئر موسٹ چھ لیفٹیننٹ جنرلز کے نام آئے ہیں۔
these are the Six persons جنہیں وزیراعظم consider کرینگے، اب وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ کس کو اپائنٹ کرتے ہیں، امید ہے ایک آدھ دن میں جو اتنی بڑی controversy چلتی رہی ہے اور سارا ملک اس پر فوکس تھا اس پر کچھ فیصلہ ہوجائیگا۔ اس سوال پر کہ کیا اب سے کچھ دیر پہلے سمری جی ایچ کیو سے وزیراعظم ہاؤس کو موصول ہوگئی ہے؟انصار عباسی نے کہاکہ میرا خیال ہے کہ اس میں وزارت دفاع لازماً شامل ہوگی کیونکہ انکی شمولیت کے بغیر سمری نہیں آسکتی، hopefully ان کے پاس یہ انفارمیشن ہوگی، مجھے نہیں پتا انہوں نے یہ بات کیوں disclose نہیں کی، میری اطلاعات یہی ہیں کہ سمری پی ایم ہاؤس میں موصول ہوچکی ہے۔ میزبان کے اس سوال پر کہ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بحرانی صورتحال نہ ہوجائے اب وہ صورتحال نہیں ہوگی؟
انصار عباسی نے کہا کہ میں نے اس پر اسٹوریز کیں مگر کچھ دنوں سے اسٹوریز نہیں کررہا تھا، میری کل رات تک یہی انفارمیشن تھی کہ یہ smooth selling ہوگی ، کوئی اتنا مسئلہ نہیں ہوگا، ہم ایک طرف سول گورنمنٹ میں اپنے contacts سے رابطوں میں تھے تو میرے جو ملٹری سائڈ پر جو contacts ہیں وہاں سے بھی مجھے یہی کہا گیا تھا کہ جو میرٹس پر ہیں، جس دن سمری بھیجی جائے گی جو جو شخص اس دن سروس میں ہوگا اس کا نام آپ مائنس نہیں کرسکتے، اس کی entitlement ہے اور اسی حساب سے نام جائینگے، اچھی بات ہے کہ ہمیں پی ٹی آئی اور عمران خا ن کی طرف سے بھی maturity نظر آئی ہے، پہلے وہ آرمی چیف کی تقرری پر تنازع پیدا کرنا چاہ رہے تھے لیکن اب اچھی بات ہے کہ وہ اسے متنازع نہیں بنانا چاہ رہے، مجھے کچھ دن پہلے بتایا گیا تھا میں نے پہلے ایک وی لاگ میں یہ بات کی اور اس پر لکھا تو مجھے پی ٹی آئی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ ہم یقین دہانی کرواتے ہیں کہ حکومت جس کو چاہے آرمی چیف بنادے ہم اس کو متنازع نہیں بنائیں گے.
انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کروائی کے صدر مملکت بھی کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے، آپکو پتا ہے اس قسم کا مسئلہ ہوگا کہ آپ فوج کے ادارے کے ساتھ، اسکی top most appointment کے ساتھ اگر اس قسم کی سچویشن کرتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہوگا اس کا اثر ہماری معیشت پر بھی ہوگا، ہماری سیاست پر بھی ہوگا، پچھلے کچھ دنوں میں یہ maturity نظر آئی، آپ خود بھی کہہ رہے ہیں جب آپکی خواجہ آصف سے بات ہورہی تھی، یہی بات تھی کہ وہ اپنی پوزیشن سے پیچھے گئے جو پی ٹی آئی کے پارٹ پر اچھی بات ہے۔
میزبان کے اس سوال پر کہ عمران خان 26تاریخ کو آرہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں عمران خان 26تاریخ کو اس حوالے سے کوئی تنازع کھڑا نہیں کرینگے نہ صدر کی طرف سے کوئی تنازع ہوگا بلکہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی smoothly ہوجائے گی؟انصار عباسی نے کہا کہ مجھے جو تاثر دیا گیا ہے اور جس قسم کے بیانات آنا شروع ہوئے، شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری بار بار کہہ رہے ہیں کہ صدر کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے، پچھلے چھ سات مہینوں میں ہم نے جو confrontation دیکھی، عمران خان نے جو براہ راست اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ confrontation کی تھی اس سے اب وہ آگے بچنا چاہ رہے ہیں، آرمی چیف کی تبدیلی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا ایک major player change ہوجاتا ہے تو وہ اب مستقبل کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں لڑنا چاہتے اور وہ مستقبل کے آرمی چیف سے بھی نہیں لڑناچاہیں گے۔ شاہزیب خانزادہ سوال کیا کہ انکی جو خواہش ہے کہ فوج انکے حق میں مداخلت کرے تو کیا عمران خان کی یہ توقعات بدل جائیں گی، کیا پی ٹی آئی میں یہ sense ہے کہ اب جمہوری طریقے سے الیکشن کی طرف بڑھنا ہے؟ انصار عباسی نے کہا کہ یہ بات ویسے وہ نہیں کہتے لیکن میں کم از کم پاکستانی کی حیثیت سے ایک تو عمران خان اور انکی پارٹی کو بھی میری گزارش ہوگی کہ اس طرح کی توقعات نہیں ہونی چاہئے، جو بھی نئے ا ٓرمی چیف ہونگے میری گزارش ان سے یہی ہوگی کہ سیاست سے ان کو اپنے آپ کو ہر حال میں لاتعلق رکھنا چاہئے، ان کا یہ کام نہیں ہے، کوئی بھی پولیٹیکل پارٹی ہو میں پی ٹی آئی کی بات نہیں کررہا کوئی بھی پارٹی ہو ، کسی کے behalf کے اوپر جو سیاسی فیصلے ہیں جو بنیادی طور پر سیاستدانوں نے لینے ہیں اس میں ان کا رول نہیں ہونا چاہئے، یہ کہ آپ پریشرائز کر کے فوری الیکشن کروادیں یا اس حکومت کو گرادیںیا بنادیں۔
اس سوال پر عباسی آپ نے کہا کہ آپکی معلومات یہی تھی کہ یہ smooth selling ہوگی، لیکن قیاس آرائیاں اسکے برعکس ہوئی، کل رانا ثناء اللہ نے بھی کہا کہ سمری کے ساتھ یا سمری کے بغیر دو تین دن میں تقرری ہوجائیگی، عباسی صاحب کہہ رہے تھے کہ سمری کا نہ آنا بہت سے سوالات اٹھاتا ہے، حکومت کے کیمپ کی طرف سے بھی ایسے بیانات آئے جس سے قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا؟
انصار عباسی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ایک مس ٹرسٹ ہوجاتا ہے، ہمارا ایک بیک گراؤنڈ بھی ہے، ہم اس ماضی سے اپنے آپکو الگ نہیں کرسکتے، اگر یہ کہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ یا فوج غیر سیاسی یا nuterality کی طرف جارہے ہیں تو یہ بھی ایک transition ہے، ایک دم سے ایسا نہیں ہوگا ، آرگنائزیشن میں سینئر ساتھیوں کے ساتھ جب میری بات ہوتی تھی تو وہاں پر بھی میں یہی کہتا تھا کہ مجھے میرے سورسز بار بار کہہ رہے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا ہے، مجھے بار بار یہی کہا گیا کہ ناموں میں کوئی اوپرنیچے ، ادھر ادھر کچھ بھی نہیں ہوسکتا، صرف انہی لوگوں کے نام جائینگے جو اس دن top most serving officer ہونگے، چونکہ دو پوزیشنز ہیں ان کیلئے چھ نام درکار ہیں، پینل چونکہ ہمیشہ ایک آتا رہا ہے جو پچھلی روایات تھیں ، ایسا نہیں تھا کہ پینل دو آئیں گے، ایک ہی پینل میں چھ نام آئینگے اور اس روایت کو فالو کرتے ہوئے اسی لحاظ سے یہ ہوا، ہمارا ملک ہے عجیب صورتحال ہے کہ دنیا کہاں چلی گئی ہے اور ہم کن مسئلوں میں پھنسے ہوئے ہیں، شکر ہے یہ مسئلہ حل ہوا لیکن اس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے، ہمیں توسیع کا راستہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنا چاہئے، سول بیوروکریسی کی تباہی کی بہت بڑی وجہ یہی تھی کہ وہاں ہردوسرے شخص کو ایکسٹینشن دی جاتی تھی، فوج کا ادارہ ہمیں عزیز ہے اس کو ہمیں بچانا ہے تو ہمیں ایکسٹینشن کا رواج مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا، صرف ایک tenure ہونا چاہئے، چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتیوں میں بھی پہلے اسی طرح عجیب و غریب ماحول ہوتا تھا، عجیب قسم کی سیاست ہوتی تھی، جب سے چیف جسٹس کی تقرری سینیارٹی کی بنیاد پر ہونے لگی ہے سارے مسئلے ختم ہوگئے ہیں، یہاں بھی ہمیں اس قسم کی کوئی چیز متعارف کروانی چاہئے تاکہ ہم ہر تین سال بعد بحیثیت قوم اس امتحان میں پڑجاتے ہیں اس سے بچ سکیں۔