اماراتی شاعر کی اُردو سے محبت‘ پاکستان کو دوسرا گھر قرار دے دیا

ابوظہبی (قدرت روزنامہ) متحدہ عرب امارات کے شاعر نے پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دے دیا، جن کی اُردو زبان سے محبت 1970ء کی دہائی سے ہے جب وہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے گئے، اس وقت سے وہ ملک کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں . خلیج ٹائمز کے مطابق متحدہ عرب امارات کے شہری ڈاکٹر زبیر فاروق اردو شاعری سے اپنی محبت کی وجہ سے ہندوستانی اور پاکستانی ادبی حلقوں میں ایک جانا پہچانا نام ہیں، پیشے کے لحاظ سے ماہر امراض جلد ڈاکٹر زبیر نے اُردو میں 100 سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان کے لکھے ہوئے بہت سے گانے بالی ووڈ اور لالی وڈ کے گلوکاروں نے گائے ہیں، جنوبی ایشیائی زبان سے ان کی محبت 1970 کی دہائی سے شروع ہوئی جب وہ کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے پاکستان گئے .


انہوں نے بتایا کہ میں 1970ء سے 1977ء تک 8 سال پاکستان رہا، وہاں پڑھا اور اردو سیکھی، میں نے ایک سال تک ہاؤس جاب کی اور پھر واپس یو اے ای آیا پاکستانی خاتون شہری سے شادی شدہ بھی کی بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ اور امریکا چلے گئے، حال ہی میں 51 ویں قومی دن کی تقریبات کے موقع پر پاکستان ایسوسی ایشن دبئی (PAD) نے اماراتی کمیونٹی کے صحت کی دیکھ بھال، فلاح و بہبود، عوامی خدمت، کاروباری شخصیت اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو اعزازات سے نوازا .
ڈاکٹر زبیر کو ایسوسی ایشن کی جانب سے اردو اور متحدہ عرب امارات و پاکستان کی دوستی کو فروغ دینے کے لیے ان کی خدمات پر بھی ایوارڈ دیا گیا، انہوں نے کہا کہ جس طرح تمام پاکستانی متحدہ عرب امارات کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں، اسی طرح پاکستان میرے لیے دوسرا گھر ہے، جہاں کے لوگ بہت دوستانہ اور مددگار ہیں، اب تک میں 102 کتابیں لکھ چکا ہوں، میں پاکستان کی شاعری کو ہندوستانی اردو شاعروں سے بھی بہتر سمجھتا ہوں .
ڈاکٹر زبیر نے کہا کہ میں نے 1984ء میں شاعری شروع کی تھی اور اس کے بعد سے بالی ووڈ اور لالی وڈ دونوں گلوکاروں نے میرے لکھے ہوئے گانے گائے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ بالی ووڈ اور لالی وڈ کے بہت سے معروف گلوکاروں، جیسے جاوید علی، سادھنا سرگم، غلام عباس اور محمد علی شہکی نے پہلے اماراتی اردو شاعر کے لکھے ہوئے گانے گائے ہیں . انہوں نے کہا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں متحدہ عرب امارات کے لوگوں کو اردو اور ہندی کا کچھ علم ہے، آج بھی جب ہم خریداری پر جاتے ہیں تو لوگ کرنسی کو 'روپیہ اور پیسہ' کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، میرا خاندان بھی اردو سمجھتا ہے لیکن وہ میری طرح روانی سے نہیں بول سکتے .

. .

متعلقہ خبریں