اسلام آباد (قدرت روزنامہ)الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستوں کو مسترد کرنے کے بارے میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں ایک بار پھر انہوں نے اسے نہ صرف چار تین کے تناسب کا فیصلہ قرار دیا بلکہ عدالت عظمٰی کی سیاسی معاملات میں مداخلت پر شدید تنقید بھی کی ہے . پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات ازخودنوٹس کیس میں 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ اس مقدمے میں سماعت کرنے سے عدالت نے سیاسی معاملات میں مداخلت کی اور اگر فل کورٹ بن جاتی تو عدالت کو متنازعہ ہونے سے بچایا جا سکتا تھا .
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تین بنیادی وجوہات کی بنا پر ازخودنوٹس کیس کو مسترد کرتے ہیں، سب سے پہلی بات کہ فل کورٹ نے ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق کچھ اصول وضع کیے ہیں جنہیں مدنظر رکھنا سماعت کرنے والے بینچ پر لازم تھا . جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی مقدمات میں عدالتوں کو اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لیے ازخود نوٹس کے اختیار میں انتہائی احتیاط برتنی چاہیے، تیسرے نمبر پر عدالت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ عدالت میں مقدمہ دائر کرنے والا فریق کیا صحیح معنوں میں متاثرہ شخص ہے بھی یا نہیں .
جسٹس اطہر من اللہ نے تفصیلی نوٹ میں لکھا ہے کہ کسی بھی عدالت کے فیصلے کی قانونی حیثیت تب تک ہی ہوتی ہے جب تک عوام کو یقین ہو کہ عدالت آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور غیر سیاسی فیصلہ کرے گی . ہمارے سامنے آنے والا مقدمہ بنیادی طور پر سیاسی ہے اور ایک ہائی کورٹ پہلے ہی اس پر فیصلہ دے چکی ہے .
عدالت کو تیسری مرتبہ سیاسی معاملات میں دھکیلا گیا
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ مختصر وقت میں تیسری بار اس عدالت کو سیاسی معاملات میں دھکیلا جا رہا ہے . پہلی دفعہ اس عدالت نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر مداخلت کی اور متفقہ طور پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی اسمبلی توڑنے کے عمل کو غیرآئینی قرار دیا گیا . اس کے بعد عمران خان نے اپوزیشن لیڈر کا عالی شان منصب قبول کرنے کی بجائے اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی کے ساتھ اجتماعی استعفے دینے کا قدم اٹھایا . اور جب استعٖفے منظور نہیں ہوئے تو ایک بار پھر اس عدالت سے ثالثی کے لیے درخواست کی گئی اور صدر کے ذریعے آرٹیکل 63 اے پر رائے مانگی گئی . اور ایک بہت ہی تلخ سیاسی ماحول میں ایک ایسا فیصلہ دیا گیا جس کے نتائج بہت دور رس ہونا تھے .
جسٹس یحییٰ آفریدی کی دی گئی وجوہات سےمتفق ہوں
تفصیلی نوٹ میں لکھا ہے کہ الیکشن التوا کیس میں پنجاب کی حد تک مقدمے کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کر چکی تھی اور چیف جسٹس نے اس مقدمے کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے جو وجہ بیان کی وہ الیکشن میں تاخیر کے حوالے سے ایک خدشہ تھا . جس پر جسٹس یحیٰی آفریدی نے درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے پر فیصلہ سنا دیا تھا .
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ میں جسٹس یحیٰی آفریدی کی جانب سے ان درخواستوں کو مسترد کرنے کے بارے میں دی گئی وجوہات سے پوری طرح متفق ہوں . میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی دی گئی وجوہات سے بھی اتفاق کرتا ہوں . میں نے اس مقدمے کی سماعت سے نہ کبھی خود کو الگ کیا اور نہ ہی سماعت سے معذرت کی؛ 27 فروری کو عدالت کے عقب میں موجود کمرے میں ججوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں یہی طے پایا تھا کہ مذکورہ مقدمہ چار تین سے مسترد ہو چکا ہے .
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ کا گیارہ رکنی بینچ بینظیر بھٹو بنام وفاق مقدمے میں حدود طے کر چکا ہے . عدالت کے ہاتھ میں نہ تلوار ہوتی ہے اور نہ ہی خزانہ لیکن عدالت کی آزادی اور غیرجانبداری پرعوام کا اعتماد ہی عدالت کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے . سیاسی معاملات میں آرٹیکل 184-3 کے ذریعے بار بار مداخلت کی وجہ سے عوام کے عدالت پر اعتماد میں تبدیلیاں آئی ہیں .
ازخود نوٹس بنیادی حقوق کی پامالی پر لینا چاہیے نہ کہ حکمرانوں کو بچانے، نکالنے کے لیے
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ جبری گمشدگی، اظہار رائے پر پابندی، جیلوں کی بری حالت، صحافیوں کے خلاف تشدد، تحویل میں تشدد اور اس طرح کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پرازخود نوٹس اختیارات کوترجیحی بنیادوں پر استعمال کرنا چاہیے اور یہی اس کا مقصد ہے کہ مظلوم اور محکوم طبقات کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے . حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان اختیارات کو منتخب وزرائے اعظم کو نکالنے اور فوجی حکومتوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے استعمال کیا گیا .
سیاسی معاملات میں مداخلت سے عوام کا عدالت پر اعتماد متزلزل ہوا
جسٹس اطہر من اللہ نے ان واقعات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ کس طرح نظریہ ضرورت کے خاتمے کے بعد بھی ظفر علی شاہ کیس میں جنرل مشرف کو عدالت عظمٰی نے نہ صرف قانونی حیثئت دی بلکہ ان کو آئین میں ترمیم کرنے کی بھی اجازت دی . جنرل مشرف کی پھانسی کے فیصلے کو ایک ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا لیکن اس ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں اب بھی زیرالتوا ہیں . اسی طرح سے کئی سیاست دانوں کو صادق اور امین نہ ہونے کی وجہ سے نااہل کیا گیا . عدالت کی سیاسی معاملات میں مداخلت سے لوگوں کا اس عدالت پر اعتماد متزلزل ہوا . عدالت پر لوگوں کا اعتماد تب ہی ختم ہو جاتا ہے جب لوگوں کو یقین ہو کہ جج کے جبے میں دراصل ایک سیاستدان ہے . رکوڈک اور اسٹیل مل جیسے مقدمات میں مداخلت کے ذریعے عدالت نے حکومت کے مالی معاملات میں مداخلت کی جس کا نتیجہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی مقدمے بازی کی صورت میں نکلا . ڈیم کے فنڈز اکٹھے کرنے کے معاملے پر بھی اس عدالت پر سوالات اٹھائے گئے .
عدالت کو سیاسی حریفوں کو اپنا کندھا نہیں پیش کرنا چاہیے
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ ازخود نوٹس اختیارات اور سماعت کے لیے بینچوں کی تشکیل شفاف انداز میں ہونی چاہیے جس پر عوام کو اعتماد ہو . عدالت کو سیاسی حریفوں کو اپنے فائدے حاصل کرنے کے لیے اپنا کندھا پیش نہیں کرنا چاہیے . سیاسی حریف پارلیمانی فورمز کی بجائے جب اپنے مقدمات عدالتی فورمز پر لاتے ہیں تو اس سے پارلیمان کمزور ہوتا ہے . دوسرے سیاسی حریفوں کو حوصلہ ملتا ہے کہ وہ صبر، حوصلے اور برداشت سے مکالمے کے ذریعے آپس کے معاملات طے کرنے کی بجائے عدالتوں میں چلے آتے ہیں . اس عدالت میں پچاس ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں اور اس عدالت کا فرض ہے کہ ان کے مقدمات کو فوقیت دی جائے .
سیاستدانوں کے معاملات آنے سے ہر دو صورتوں میں عدالت کی ہی ہار ہوتی ہے
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ملک کے سیاسی ماحول میں بہت زیادہ تلخی ہے، جب سیاست دان اپنے مقدمات عدالتوں میں لاتے ہیں تو کوئی بھی جیتے عدالت ہار جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ جس انداز میں یہ مقدمہ چلایا گیا، اس نے عدالت کو غیر ضروری طور پر سیاسی لڑائی میں گھسیٹا .
عدالت ماضی تو تبدیل نہیں کرسکتی لیکن سبق ضرور حاصل کرسکتی ہے
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنے کی بجائے ایک ساتھ استعفے دیے اور جب وہ منظور نہیں ہوئے تو عدالتوں سے رجوع کیا . جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ عدالتیں اپنے ماضی کو مٹا نہیں سکتیں لیکن مستقبل کے لیے سبق ضرور حاصل کر سکتی ہیں .