ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ میرے خیال میں بہت سے لوگوں نے امریکی سفارت کار کے تبصرے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے . میتھیو ملر نے کہا کہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ نجی اور سرکاری سطح پر عمران خان کی کچھ پالیسیوں اور روس کے یوکرین پر حملے کے دن ماسکو کا دورہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن جیسا کہ اس وقت امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر کہہ چکے ہیں کہ یہ الزامات درست نہیں کہ امریکا نے ملک کی قیادت کے حوالے سے پاکستان کے داخلی فیصلوں میں دخل اندازی کی اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ الزامات غلط ہیں . محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس مراسلے میں موجود باتوں کو اگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے پالیسی کے حوالے سے اپنے خدشے کا اظہار کر رہی ہے نہ کہ وہ اس بارے میں اپنی ترجیح بیان کر رہی ہے کہ پاکستان کا لیڈر کسے ہونا چاہیے . آیا یہ دانستہ کوشش تھی یا نہیں اس بارے میں وہ تبصرہ نہیں کر سکتے . کسی کی نیت پر بات نہیں کی جاسکتی لیکن لیکن میرے خیال میں ایسا ہی ہوا ہے . مارچ 2022 میں امریکا میں پاکستان کے سفیر کی جانب سے بھیجے گئے سائفر کی تحریر کے بارے میں انٹرسیپٹ نامی امریکی نیوز ویب سائٹ پر ایک خبر شائع کی گئی ہے جس میں اس سفارتی مراسلے کا مبینہ متن شامل ہے جسے اسد مجید نے امریکی معاون وزیر خارجہ برائے وسط اور جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے ہونے والی گفتگو کے بعد تحریر کیا تھا . . .Reacting to The Intercept story, the US govt rejects there was any conspiracy against Imran Khan in any form pic.twitter.com/XPLhgURgr2
— Murtaza Ali Shah (@MurtazaViews) August 9, 2023