چیف جسٹس کے سیکریٹری نے عمران خان کے خط کا جواب دے دیا
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سابق وزیر اعظم عمران خان کے خط کے جواب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سیکریٹری کی طرف سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ انہیں اپنی آئینی ذمہ داریوں کا بخوبی ادراک ہے۔
ایک پریس ریلیز میں چیف جسٹس کے سیکریٹری ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر نہ دباؤ ڈالا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ جانبداری کریں گے، لہٰذا جستس فائز اپنے فرائض کی ادائیگی اور اپنے منصب کے حلف کی پاسداری کرتے رہیں گے۔
یہ پریس ریلیز ایک دستاویز کے جواب میں جاری کی گئی ہے جس کے بارے میں سیکریٹری برائے چیف جسٹس نے کہا کہ اسے تیار کرنے والے وکیل کا نام اور رابطے کی تفصیلات دستاویز میں ظاہر نہیں کی گئیں۔
پریس ریلیز کے مطابق ’دستاویز بظاہر ایک سیاسی جماعت کی جانب سے بھیجی گئی ہے حالانکہ اس جماعت کی اچھی نمائندگی وکلا کرتے رہے ہیں، پچھلے دنوں سپریم کورٹ میں اس جماعت کے وکلا دو اہم مقدمات – فوجی عدالتوں اور انتخابات کے متعلق – میں پیروی کر کے انھیں تکمیل تک لے گئے۔‘
چیف جسٹس کے سیکریٹری نے کہا کہ ’یہ امر حیران کن ہے کہ (ایک سربمہر لفافے میں) موصول ہونے سے پہلے ہی اس دستاویز کو میڈیا پر جاری کیا جاچکا تھا۔‘
خیال رہے کہ 30 اکتوبر کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے چیف جسٹس سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی سے وابستہ افراد کو سیاسی انتقام اور جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عمران خان نے خط میں استدعا کی تھی کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت الیکشن کمیشن کو حکم دیا جائے کہ پی ٹی آئی کے اُمیدواروں کو الیکشن مہم کی اجازت دیں جب کہ پیمرا کو حکم دیا جائے کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کی بھی میڈیا کوریج کرنے کی اجازت دے۔
سیکریٹری برائے چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے جواب میں لکھا کہ یہ دستاویز انتظار پنجوتھا نے کوریئر کی تھی۔ اس پر انتظار پنجوتھا نے ایکس پر لکھا کہ ’عمران خان کے خط کو سپریم کورٹ عملہ کے ذریعے چیف جسٹس تک پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کو موصول کرنے سے انکار کے بعد یہی راستہ بتایا گیا کہ آپ بذریعہ ڈاک سے خط چیف جسٹس صاحب کو بھجوائیں، اور خط اسی طرح بھجوایا گیا۔‘
جواب میں لکھا گیا کہ ’تمام حقائق چیف جسٹس کے گوش گزار کرنے کا مقصد بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو روکوانا تھا لیکن پریس ریلیز کے ذریعے دیے جانے والے جواب سے ایسی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رُک نہیں گئیں۔‘