پاکستان

ہر ماہ 18ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے پر تیار ہیں، پاکستان کی آئی ایم ایف کو یقین دہانی


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) ریونیو اہداف پورے نہ ہونے پر پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ 15فروری سے قبل گیس کی قیمت میں مزید اضافہ کردیا جائے گا جب کہ اسی طرح پاکستان ہر ماہ 18ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے پر بھی تیار ہے۔آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 216ارب کے اضافی ٹیکسز صرف اس صورت میں لگائے جائیں گے جب ایف بی آر اور دیگر ذرائع وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوں گے۔
اس حوالے سے نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرا دی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نگران حکومت مالی سال کے پہلے تین ماہ میں پرائمری بجٹ کو سرپلس رکھنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔آئی ایم ایف کی اسٹاف لیول رپورٹ کے مطابق پاکستان دسمبر کے ششماہی گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن 15فروری تک جاری کر دے گا۔
پاکستانی محکمہ شماریات کے مطابق گیس کی قیمت میں ایک سال کے دوران یہ تیسرا اضافہ ہوگا۔ نومبر میں نگران حکومت نے گیس کی قیمت میں 1100فیصد اضافہ کیا تھا۔ وزیر توانائی نے دعوی کیا ہے کہ اوسط اضافہ 172فیصد رہا ہے۔ گیس کی قیمت میں دو اضافوں کے باوجود گردشی قرضہ بڑھ کر نومبر کے آخر تک ششماہی گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن 15فروری تک جاری ششماہی گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن 15فروری تک جاری 3ٹریلین روپے ہوگیا۔ اس طرح صرف پانچ ماہ میں یہ 938ارب روپے بڑھ گیا۔
نگرانی حکومت نے کہا ہے کہ فروری میں ہونے والے قیمت میں اضافے سے ڈومیسٹک صارفین کے حالیہ بڑھتے ہوئے سلیب سٹرکچر کو برقرار رکھا جائے گا اور انتہائی غریب صارفین کو حاصل تحفظ پر کوئی اثر نہیں پڑ ے گا۔ تاہم نگران حکومت نے بظاہر آئی ایم ایف کو غلط طور پر بتایا ہے کہ انتہائی غریب صارفین کو تحفظ نومبر 2023کی قیمت میں اضافے سے تحفظ دیا گیا ہے۔
پی بی ایس کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ماہانہ 17000روپے تک کمانے والے ملک کے سب سے غریب طبقے کو بھی قیمتوں میں 1108فیصد اضافے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آئی ایم ایف نے اعتراف کیا ہے کہ نومبر کی گیس کی قیمت میں اضافے سے آنے والے مہینوں میں مہنگائی بڑھے گی۔ اس سے اگلے سال مہنگائی کا تخمینہ 7سے 9فیصد تک کا لگایا گیا ہے۔ اس مالی سال آئی ایم ایف نے مہنگائی کا اندازہ 24فیصد لگایا ہے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ انڈسٹریل اور کمرشل صارفین کو حاصل سبسڈیز کو بھی کم کیا جائے گا۔ وہ صنعتی اور تجارتی صارفین کے لیے بڑی ترجیحی کراس سبسڈی کو کم کرے گا، اور کیپٹیو گیس کے استعمال کو مزید کم کرے گا۔ غیر گھریلو صارفین کو نیم سالانہ نوٹیفیکیشنز کے ذریعے بہتر بنایا جاتا رہے گا۔قلیل وسائل کو زیادہ موثر اثاثوں تک پہنچانا، قریبی مدت میں کیپٹو پاور کو ختم کرنا اور کیپٹیو پاور صارفین کو بجلی کے گرڈ میں منتقل کرنے جیسے اقدامات بھی کئے جائیں گے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا کہ کیپٹیو پاور استعمال کرنے والوں کے لیے ان مقامات پر گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا جہاں نیٹ ورک کی قابل اعتماد تقسیم موجود ہے۔ گرڈ تک رسائی نہ رکھنے والے کیپٹیو پاور صارفین کو بجلی کے گرڈ میں منتقلی کے لیے ایک سال کا وقت دیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کو دی گئی یقین دہانی کے مطابق گیس کی قیمتیں آر ایل این جی کے مساوی کر دی جائیں گی۔ وہ صنعتی اور تجارتی صارفین کے لیے بڑی ترجیحی کراس سبسڈی کو کم کرے گا، اور کیپٹیو گیس کے استعمال کو مزید کم کرے گا۔ غیر گھریلو صارفین کو نیم سالانہ نوٹیفیکیشنز کے ذریعے بہتر بنایا جاتا رہے گا۔
قلیل وسائل کو زیادہ موثر اثاثوں تک پہنچانا، قریبی مدت میں کیپٹو پاور کو ختم کرنا اور کیپٹیو پاور صارفین کو بجلی کے گرڈ میں منتقل کرنے جیسے اقدامات بھی کئے جائیں گے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا کہ کیپٹیو پاور استعمال کرنے والوں کے لیے ان مقامات پر گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا جہاں نیٹ ورک کی قابل اعتماد تقسیم موجود ہے۔ گرڈ تک رسائی نہ رکھنے والے کیپٹیو پاور صارفین کو بجلی کے گرڈ میں منتقلی کے لیے ایک سال کا وقت دیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کو دی گئی یقین دہانی کے مطابق گیس کی قیمتیں آر ایل این جی کے مساوی کر دی جائیں گی۔ وزیر خزانہ نے یقینی دہانی کرائی ہے کہ کیپٹو پاور جنریشن کے استعمال کو جنوری 2025تک ایک حتمی مرحلے تک پہنچا دیا جائے گا۔دوسری طرف پاکستان نے آئی ایم ایف کو اپنی وصولیوں کو بڑھانے کے لیے ہر ماہ 18ارب روپے کے ٹیکسز بڑھانے کا بھی کہ دیا ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان مالی سال میں پرائمری بجٹ میں 401ارب روپے کا سر پلس حاصل کرلے گا۔ اگر وصولیوں میں کمی ہوئی تو حکام نے دیگر کئی ہنگامی اقدامات کو بھی پیش نظر رکھا ہوا ہے جس سے کمی کو پورا کرلیا جائے گا۔ مزید اقدامات میں ٹیکسٹائل اور لیدر کے ٹائر ون کے جی ایس ٹی کو 15فیصد سے بڑھا کر 18فیصد کردیا جائے گا۔ اس سے ہر ماہ ایک ارب اور سالانہ 12ارب آمدن حاصل ہوگی۔
نگران حکومت نے ہر ماہ اضافی 8ارب اور سالانہ 96ارب روپے کے حصول کے لیے چینی پر بھی فی کلو 5روپے کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کی حامی بھر لی ہے۔ ہر ماہ مزید 2ارب روپے جمع کرنے کے لیے مشینری کی درآمد پر ایک فیصد ایڈونس انکم ٹیکس بھی لگایا جائے گا۔ مزید ماہانہ دو ارب روپے کے حصول کے لیے ڈاکٹر شمشاد اختر صعنتوں کی جانب سے خام مال کی درآمد پر 0.5فیصد ٹیکس لگانے کو بھی تیار ہیں۔
اسی طرح نگران حکومت نے ہر ماہ ایک ارب روپے کی اضافی انکم کے لیے کمرشل درآمد کنندگان کی جانب سے درآمد خام مال پر ایک فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس لگانے کا بھی عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ بھی وعدہ کرلیا گیا ہے کہ سپلائیز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو ایک فیصد بڑھا دیا جائے گا جس سے ہر ماہ ایک ارب روپے حاصل ہوں گے۔ سروسز پر ایک فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس بڑھانے سے بھی ہر ماہ ڈیڑھ ارب روپے جمع کئے جائیں گے۔
حکومت نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ کنٹریکٹس بھی ود ہولڈنگ ٹیکس ایک فیصد بڑھا دیا جائے گا تاکہ ہر ماہ ڈیڑھ ارب روپے اضافی حاصل کئے جا سکیں ۔ آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ کی جانب سے تخلیقی بجٹ اکاؤنٹنگ کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کے ذریعہ سے حالیہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں حقیقی بجٹ خسارے کو کم دکھایا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ تخلیقی اکاؤنٹنگ کے اثرات کو آئی ایم ایف سے ایڈجسٹ کردیا۔ آئی ایم ایف نے پرائمری سرپلس کے ہدف کو 87ارب روپے سے بڑھا کر 389ارب روپے کردیا تھا، حکومت اس ہدف کو حاصل نہیں کر سکی۔ آئی ایم ایف نے ہدف حاصل نہ ہونے پر 376ارب روپے کی چھوٹ دی۔
کریییٹو اکاؤنٹنگ کے حوالے سے نگران حکومت نے وضاحت کی ہے کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بجٹ کا جنرل پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 0.4فیصد تھا۔ اضافی پرائمری سرپلس کا حصہ تکنیکی تاخیر کی وجہ سے تھا۔ اکتوبر کے آغاز میں 72ارب روپے کی بجلی کی سبسڈیز بھی جاری کی گئیں۔ ہمیں ترقیاتی بجٹ کے اخراجات میں بھی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ 147ارب روپے جاری کئے گئے تھے اور صرف 41ارب روپے خرچ ہوئے۔

متعلقہ خبریں