کوئٹہ (قدرت روزنامہ)سربراہ بی این پی سردار اخترمینگل کا مولانا فضل الرحمان کےانکشافات پرردعمل،پی ٹی آئی کاآمرانہ رویہ اس کےخلاف تحریک عدم اعتمادکاباعث تھا . پی ٹی آئی کی حکومت اگراپوزیشن کوساتھ لےکرچلتی توایساکچھ نہ ہوتا .
پی ٹی آئی کےرویہ نےتمام جماعتوں کواکھٹاہونےپرمجبور کیا . جب تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو سب جماعتوں نے اس پر اتفاق کیا تھا .
سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے ہمیں تحریک عدم اعتماد نہ لانے کا کہا تھا . جنرل باجوہ عمران خان کو اسمبلیاں ختم کرنے اور نئے انتخابات کروانے پرراضی کرچکے تھے . جب عدم اعتماد کا فیصلہ کیا گیا تو میں ملک سے باہر تھا . لاہور میں میاں شہباز شریف سے ملاقات میں عدم اعتماد سے متعلق بات ہوئی تھی . میں نےخدشہ ظاہرکیاتھاکہ ایسانہ ہوکہ تحریک انصاف کی بیڈگورننس کاگندہمارےسرآجائے .
شہبازشریف کوخدشہ تھاکہ اگرعمران خان کونہ ہٹایاگیاتووہ انھیں الیکشن سےآوٹ کردینگے . تحریک عدم اعتمادلانےکافیصلہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نےمتفقہ اجلاس میں کیا . مولانا فضل الرحمان نےاجلاس کےبعدسندھ ہاوس میں افطاری کا اہتمام بھی کیا تھا . تحریک عدم اعتمادکےبعد جون2022میں حکومت ختم کرنےکافیصلہ کیاتھا .
حکومت کےخاتمےکےبعدجون 2022 کابجٹ نگراں حکومت کیجانب سےپیش کئےجانےپراتفاق ہواتھا . افطاری کےبعدہمیں ایک میس میں بلایاگیاجہاں ہماری جنرل باجوہ سےملاقات ہوئی . ملاقات میں آصف زرداری ، مولانافضل الرحمان خالد مقبول صدیقی،خالد مگسی اور بلاول بھٹو زرداری موجودتھے . تحریک عدم اعتماد کے وقت جنرل فیض کور کمانڈر پشاور تھے،ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی .