حکومت نے مطالبات تسلیم نہ کیے تو چمن دھرنے کا حصہ بنیں گے، مولانا فضل الرحمن
چمن(قدرت روزنامہ) چمن دھرنا مطالبات نہ مانے گئے تو ہم خود دھرنے کا حصہ بنیں گے، بارڈر پر پیدل آمد ورفت مقامی افراد کیلئے لوکل دستاویزات کو ترجیح دی جائے، 6 ماہ سے دھرنا دینے والے نان شبینہ کے محتاج ہوگئے، ان کا واحد روزگار بارڈر سے وابستہ ہے، جو پاسپورٹ پر ممکن نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن۔ چمن دھرنا کمیٹی کے ممبران مولوی عبدالمنان، صادق اچکزئی، شیر علی، قاری امداد اللہ، عبدالخالق سنی، بوگئی، فیض محمد، مولاداد پر مشتمل وفد نے اسلام آباد میں جمیعت علما اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن، پشتونخوا میپ و ممبر قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب و دیگر سے ملاقاتیں کیں۔ ملاقات میں چمن بارڈر دھرنا اور درپیش مسائل بارے بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر سابق ایم این اے مولانا صلاح الدین ایوبی نے مولانا فضل الرحمن کو بارڈر کی صورتحال اور درپیش مسائل سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ چمن کے 25 ہزار سے زائد افراد دن کو سرحد پار بارڈر منڈی جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں کیونکہ چمن میں کوئی متبادل روزگار نہیں ہے اور نہ ہی فیکٹریاں ہیں، تمام دار و مدار اس بارڈر سے وابستہ ہے، حکومت نے چمن بارڈر پر پاسپورٹ سے آمد ورفت کو لازمی شرط قرار دیا ہے، جس سے چمن کے لوکل عوام کو کسی صورت قبول نہیں ہے اور 6 ماہ سے مسلسل دھرنا پر بیٹھے ہیں حتی کہ ماہ رمضان میں بھی دھرنا جاری ہے، جس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ چمن دھرنا کے مطالبات برحق ہیں، حکومت پاکستان جب افغانستان کے ساتھ تجارت کی بحالی بغیر ویزہ پاسپورٹ پر رضامند ہوتی ہے تو مقامی غریب افراد نے کیا گناہ کیا ہے کہ ان کو لوکل دستاویزات پر اجازت نہیں دی جارہی، حالانکہ یہ سب کو پتا ہے کہ چمن اور اسپن بولدک کے لوگوں کے رشتے ناطے ہیں، قبرستان مشترک ہے، تو اس کیلئے پاسپورٹ کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے مطالبات ہر فورم پر اٹھائیں گے، اگر پھر بھی نہ مانے گئے تو ہم سب مل کر آپ کے دھرنے میں تب تک بیٹھیں گے جب تک مطالبات تسلیم نہیں ہوتے۔