پاکستان

مالیاتی پوزیشن آئی ایم ایف کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) پاکستان کی مالیاتی پوزیشن نے آئی ایم ایف کی جانب سے معیشت کے استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا دیا جولائی تا مارچ کے دوران 4.33 ہزار ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہوچکا ہے، جو کہ گزشتہ مالی سال کے خسارے کے مقابلے میں ایک چوتھائی زیادہ ہے، جس نے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی مالیاتی پوزیشن کے استحکام کے دعووں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے منگل کو جاری کی گئی دستاویزات میں جولائی تا مارچ تک کی معاشی صورتحال کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیا ہے۔
ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف نے پیر کے روز کہا تھا کہ پہلی ششماہی میں پرائمری سرپلس 1.8 ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پاسکتان کی مالیاتی پوزیشن مضبوط ہوتی جارہی ہے اور یہ رواں سال کے اختتام تک 0.4 فیصد پرائمری سرپلس کا ہدف حاصل کرلے گا، انھوں نے قیمتوں میں بار بار اضافے کی انرجی پالیسی کو سراہتے ہوئے اسے جاری رکھنے پر زور دیا ہے، اگرچہ پرائمری سرپلس آئی ایم ایف کے بینچ مارک سے زیادہ رہا ہے، لیکن بلند شرح سود کی وجہ سے مالیاتی پوزیشن ابھی بھی کمزور ہے، جو کہ 60 فیصد کے قریب بجٹ کو چوس رہے ہیں۔
9 ماہ کے دوران حکومت نے 5.52 ہزار ارب روپے سودی ادائیگیوں کی مد میں خرچ کیے ہیں، جو کہ اس دوران کی نیٹ انکم کے مقابلے میں 205 ارب روپے زیادہ ہیں، اور گزشتہ سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں یہ 1.94 ہزار ارب روپے زیادہ ہیں، جس کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے مرکزی بینک کو شرح سود کم کرنے سے روکنا ہے، بلند شرح سود مہنگائی کو روکنے میں بھی ناکام رہی ہے، داخلی قرضوں پر نو ماہ کے دوران 4.8 ہزار ارب روپے سود ادا کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے مہنگائی کا تخمینہ 24.8 فیصد لگایا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ بلند شرح سود مقصد کے حصول میں ناکام رہی ہے، مجموعی طور پر وفاقی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر 1.2 ہزار ارب روپے کا پرائمری بجٹ سرپلس ظاہر کرنے میں کامیاب رہی ہے، پرائمری بجٹ سرپلس میں سودی ادائیگیوں کو شمار نہیں کیا جاتا جو کہ اب مجموعی آمدنی سے بڑھ چکی ہیں، سودی ادائیگیوں کے ساتھ 9 ماہ کے دوران بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.1 ( 4.33 ہزار ارب روپے) رہا ہے، جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 23 فیصد ( 803 ارب روپے) زائد ہے، اس بار حکومت نے دفاعی اخراجات سمیت تمام ضروریات پوری کرنے کیلیے قرض کا سہارا لیا ہے۔
دفاعی اخراجات 1.22 ہزار ارب روپے رہے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 22 فیصد زیادہ ہیں، دفاع اور سودی ادائیگیوں کی مد میں مجموعی طور پر 6.74 ہزار ارب روپے خرچ ہوئے جو کہ وفاق کی خالص آمدنی سے 1.4 ہزار ارب روپے زیادہ ہیں، ان 9 ماہ کے دوران وفاقی حکومت کے اخراجات میں 38 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ جاری اخراجات میں 40 فیصد اضافہ ہوا، حکومت نے 473 ارب روپے سبسڈی کی مد میں دیے ہیں، پینشن کی مد میں 612 ارب روپے خرچ ہوئے، جبکہ ترقیاتی اخراجات میں کمی کا رجحان دیکھا گیا، جو کہ گزشتہ سال کے اس دورانیے کی نسبت 7 ارب روپے کمی کے ساتھ 322 ارب روپے رہے۔
ان مایوس کن اعداد و شمار کے باجود حکومت کچھ اچھی کارکردگی دکھانے میں بھی کامیاب رہی ہے، نان ٹیکس ریونیو میں پیٹرولیم لیوی وصول کرنے کی وجہ سے 95 فیصد ( 2.4 ہزار ارب روپے) کا اضافہ ہوا، پیٹرولیم لیوی کی مد میں 719 ارب روپے جمع ہوئے، مرکزی بینک کا منافع972 ارب روپے رہا، جبکہ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولیاں 30 فیصد اضافے سے 6.7 ہزار ارب رہیں۔

متعلقہ خبریں