بلوچستان

بلوچستان میں کارخانے لگائے جائیں، حکومت تاجروں کے منہ سے نوالہ نہ چھینے، مرکزی انجمن تاجران


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)مرکزی انجمن تاجران بلوچستان کے صدر عبدالرحیم کاکڑ نے کہا ہے کہ حکومت تاجروں کو سہولیات دینے کی بجائے ان کے منہ سے نوالہ چھین رہا ہے دکانوں، گوداموں پر چھاپے مار کر شمسی پلیٹیں، پاکستانی سگریٹس سمیت دیگر سامان قبضے میں لیکر کیس بنائے جاتے ہیں اگر کسی زمیندار نے 50شمسی پلیٹیں خریدی ہےں تو وہ پلیٹیں کسٹم آفس تک پہنچتے پہنچتے صرف 10 رہ جاتی ہےںباقی غائب کردی جاتی ہےں۔آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان غیر قانونی اقدامات کا نوٹس لیکر تاجروں کو انصاف دیا جائے۔ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنا دیں گے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت او ر متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔ یہ بات انہوں نے بدھ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا اس موقع پر حضرت علی اچکزئی ، یاسین مینگل،حاجی سعد اللہ اچکزئی ، حاجی ہاشم کاکڑ، حاجی ظفر کاکڑ ، سید عبدالخالق آغا ، نقیب کاکڑ ، محمد جان درویش ، منظور ترین، محمد فضل ، سردار ولی ، نعمت ترین ، کلیم اللہ کاکڑ، حاجی رحمت اللہ اچکزئی ، حاجی محمد عیسیٰ ، حاجی داﺅد اچکزئی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شمسی سے لوڈ گاڑیوں کو کسٹم کی مختلف چیک پوسٹوں پر یارو، لکپاس، بلیلی، کولپور ، زیارت کراس ، درخشان چیک پوسٹ سمیت دیگر مقامات پر روک کر ان سے بھتہ وصول کرتے ہیںبلوچستان جغرافیائی لحاظ سے ایران اور افغانستان بارڈر سے جڑا ہوا ہے صوبے کے عوام کا ذریعہ معاش تجارت ، زراعت، مالداری پر منحصر ہے ان شعبوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے حالیہ بارشوں اور سیلاب نے تمام شعبوں کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے اس کے باوجود حکومت لوگوں سے اپنی محنت کے ذریعے روزگار کے مواقع چھین کر انہیں بے روزگار اور نان شبینہ کا محتاج کرنے پر تلی ہوئی ہے گزشتہ 7 ماہ سے حکومت نے چمن بارڈر مکمل طور پر بند کررکھا ہے چمن کے ہزاروں خاندان اس وقت نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں اور جس کا براہ راست اثر پورے بلوچستان کے تاجروں پر پڑرہے ہےں۔بلوچستان ایک سرحدی صوبہ ہے او ریہاں پر کوئی کارخانہ نہیں ہے اور حکومت کی جانب سے کوئی ایسی سہولت نہیں ہے جوکہ یہاں کے عوام کو دی گئی ہوں ملک میں تاجر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے کے باوجود بلوچستان کے تاجروں کو ملک کے تمام ادارے دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ان کا جینا محال کردیا ہے ۔ گزشتہ روز مسجد روڈ پر ایف بی آر کی جانب سے ایگل فورس کی موجودگی میں مسجد روڈ کی دکانوں پر چھاپہ مارکر قانونی طور پر پاکستانی سگریٹ کے کاٹن قبضہ میں لے کر لے گئے جوکہ غیر قانونی عمل ہے ۔ ایگل فورس شریف النفس لوگوں کو بے عزت کرکے تاجروں کو تنگ کرنے میں مصروف ہے نہ ہی اس فورس کی کوئی حد بندی ہے ہم کئی بار حکام بالا کو شکایات کرچکے ہیں مگر انہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ کوئٹہ شہر بلوچستان میں کاروبار کا مرکز ہے اور پورے بلوچستان کے چھوٹے شہروں کے تاجر یہاں خریداری کے لئے آتے ہیں اور جب دکاندار ان کا مال کسی رکشہ یا سوزکی میں لوڈ کرکے کمپنیوں کو بھیجتے ہیں تو یہ ایگل فورس انہیں روکتی ہے اور بلا جواز تنگ کرتی ہے اور پیسے طلب کرتی ہے اور جب دکاندار یہ اصرار کرتا ہے کہ یہ مال قانونی ہے اور انہیں پیسے ادا نہیں کرسکتا تو سامان گاڑی سمیت تھانے لے جاتے ہیں اور سامان کسٹم کے حوالے کردیا جاتا ہے اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ پولیس کا اس کام سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے اس کے باوجود ہم ڈی آئی جی کوئٹہ کے پاس گئے اور انہیں تمام معاملات سے آگاہ کیا مگر ڈی آئی کی یقین دہانی کے باوجود کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ ایف سی کی جانب سے گزشتہ کئی مہینوں سے تاجروں کے گوداموں پر بلا جواز چھاپے مارے جارہے ہیں اور دکانداروں کے سامان سے ٹرک بھر کرکے لوٹ لئے جاتے ہےں اور جو سامان لے جاتے ہیں ان کی کوئی رسیونگ بھی نہیں ملتی اور جب ایف سی کے پاس جاتے ہیں کہ یہ قانونی مال ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے کسٹم کے حوالے کردیا ہے اور جب کسٹم کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سامان پر کیس کردیا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جس تعداد میں سامان ایف سی والے ضبط کرتے ہیں اور کسٹم میں جو سامان جمع کرایا جاتا ہے اس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے اگر کسی گودام سے 100 کاٹن پکڑتے ہیں تو کسٹم والے ہمیں 10 کاٹن کی پرچی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا ہی مال جمع کرایا گیا ہے اب ہمارے تاجر مزید سامان کا کسی سے مطالبہ کرتے ہیں تو ہمارے محافظ اس لوٹ مار میں ملوث ہوتے ہیں۔ کسٹم ، ایف سی اور پولیس کی جانب سے تاجروں کو لوٹنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے مگر اس بار تو بڑی دیدہ دلیری سے تاجروں کے سامان کو مال غنیمت سمجھ کر بے دردی سے لوٹ رہے ہیں۔ سورج گنج بازار ، پولیس پلازہ میں تاجروں کے سمر سیبل ، جرنیٹر ، شمسی پلیٹوں کی دکانیں ہےں اور یہاں پر پورے بلوچستان کے زمیندار آکر خریداری کرتے ہیں اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے تنگ آکر تمام ٹیوب ویلوں کو شمسی پر منتقل کررہے ہیں جب وہ بالا درج بازاروں سے خریداری کرکے سامان گاڑی میں لوڈ کرکے اپنے علاقوں کی طرف لے جاتے ہیں تو شہر کے اندر پولیس اور ایگل فورس ان سے پیسے طلب کرتے ہیں اور جیسے ہی شہر سے باہر نکلتے ہےں تو لک پاس بلیلی اور کچلاک پر ایف سی والے سامان کو پکڑلیتے ہیں اور جب وہ زمیندار دکاندار کے بل وغیرہ دکھاتے ہےں کہ یہ مال فلاں جگہ سے لیا ہے تو ان کی کوئی بات سنی نہیں جاتی مال کسٹم کے حوالے کردیا جاتا ہے اور جب کسٹم کے پاس جاتے ہیں تو اس وقت وہ کہتے ہیں کہ مال ہم نے کیس کردیا ہے اور کیس میں آدھے سے زیادہ مال غائب کردیا جاتا ہے۔ اور اگر کسی زمیندار نے 50شمسی پلیٹیں خریدی تھی تو کسٹم آفس تک پہنچتے پہنچتے صرف 10 رہ جاتی ہےںاور 40غائب کردی جاتی ہے۔ چیف کلیکٹر کسٹم اور آئی جی ایف سی شمسی لوڈ گاڑیوں کو کسٹم کی مختلف چیک پوسٹوں پر یارو، لکپاس، بلیلی، کولپور ، زیارت کراس ، درخشان چیک پوسٹ سمیت دیگر مقامات پر روک کر ان سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاجروں کو تنگ کرنے کا سلسلہ بند کرکے آئے روز کے چھاپوں کا سلسلہ بند اور سولر پلیٹس کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کی گاڑیوں کو بغیر کسی روک ٹھوک کے چھوڑدیا جائے۔ حکام نے یقین دہانی کرائی تھی کہ کمرشل ایریا میں کسی بھی لوڈنگ گاڑی اور گوداموں پر چھاپہ نہیں مارے گی اور ہم ایف بی آر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لوٹی ہوئی رقم اور سگریٹ مسجد روڈ کے تاجروں کو واپس کردی جائے ۔ تاجر ایک پر امن طبقہ ہے اور حکومت ہمیں پر تشدد راستے پر آنے کیلئے مجبور کررہی ہے اور ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر یہ لوٹ مار کا سلسلہ بند نہ ہوا اور تاجروں کو دوبارہ لوٹنے کی کوشش کی گئی تو ہم مزید پر امن نہیں رہیں گے کہاوت ہے کہ (تنگ آمد بہ جنگ آمد) اور اس کے بعد جو بھی نقصان ہوا تمام تر ذمہ داری ایف سی ، پولیس ،کسٹم اور ایف بی آر پر عائد ہوگی۔ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنا دیں گے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔

متعلقہ خبریں