ماشکیل دھرنے کے مطالبات کو تسلیم نہ کرنا قابل تشویش ، یک مچھ و تفتان میں ڈرائیوروں پر جبر بلوچ دشمن پالیسیوں کا عکاسی ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان کے چاغی میں دو روز قبل دو بلوچ ڈرائیوروں کو ایف سی اہلکاروں نے سزا کے لیے ننگے پیر تپتی ریت پہ کھڑا کر دیا جس کے سبب ان کے پیر جھلس گئے، اس غیر انسانی عمل کے خلاف کل جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاج کی گئی تو ریاستی فوج اور خفیہ اداروں نے ڈرائیوروں کو دھماکایا گیا کہ وہ اپنا بیان بدل دے وگرنہ وہ خطرناک نقصانات کا سامنا کرینگے۔
اس طرح ماشکیل میں عوام گزشتہ 30 دنوں سے دھرنے کی صورت میں سراپا احتجاج ہیں مگر کسی بھی ادارے کی طرف سے اب تک کوئی خاطر خواں شنوائی نہیں ہوئی جو باعث تشویش ہے۔ ماشکیل دھرنے کے جائز مطالبات جن میں سرفہرست مزہ سر کراسنگ پوائنٹ کی دوبارہ بحالی ہے جو تین سال پہلے کرونا وباءکے وقت بند کی گئی تھی جو آج تک بلا جواز بند ہے جس کی بندش کی سبب ماشکیل میں اشیاء خورد نوش ناپید ہیں اور علاقہ اس وقت شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ دوسرا مطالبہ زیروپوائنٹ کی دوبارہ بحالی ہے جو گزشتہ تین سالوں سے بند ہے اور اس کے ساتھ راہداری کیساتھ بھی آمد ورفت پر پابندی ہے جس کی دوبارہ بحالی بھی مطالبات میں شامل ہیں لیکن ریاستی ادارے بلوچ عوام کے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک کرکے ان بنیادی سماجی حقوق کے مطالبات کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچ سرزمین کے وارث اس وقت دو وقت کے روٹی کے لیے بھی روزانہ گولیوں کا سامنہ کرتے ہے۔ ایک جانب ساحل وسائل کی لوٹ و کھسوٹ کا نا تھمنے والا سلسلہ اور دوسری جانب بلوچ نسل کشی کا سلسلہ روز بروز ایک نئی شکل میں نمودار ہورہا ہے۔ جبری گمشدگیوں، مصنوعی آفات، روڈ ایکسیڈنٹ کینسر اور دیگر شکلوں میں بلوچ سماج میں ریاست کی جانب سے سرانجام دیے جارہے ہیں، اسی تسلسل میں ایک نام نہاد بارڈر پر روزانہ خوراک کی تلاش کرنے والے مزدوروں کو کبھی بھوک و پیاس سے مرنے کے لیے گاڑیوں میں ریت ڈال کر چھوڑ دیا جاتاہے تو کبھی اندھا دھند فائرنگ کرکے مار دیتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے متعدد بلوچ ڈرائیوروں کو ریاستی فوج نے قتل کیا ہے اور ان معصوم جانوں کے ضیاع پہ کبھی ندامت نہیں دکھائی گئی کیونکہ یہ بلوچ نسل کشی پالیسی کا حصہ ہے۔
سرحدی بارڈر کے نام پر لکیر کے دونوں اطراف بلوچ عوام کی روزی روٹی اور گزر بسر کا دارومدار اسی بارڈر کی آمدورفت پر ہے جسے ایک منظم پالیسی کے تحت کنٹرول کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے بارڈر کے دونوں اطراف بلوچ عوام شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہیں، ماشکیل کی عوام اس وقت معاشی طور پر ابتر صورتحال کا سامان کر رہی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اس بیان کے توسط سے عوام تک ان حقائق کو پہنچانا چاہتی ہے کہ کس طرح ریاست اور اس کی پوری مشینری بلوچ عوام کے خلاف اپنی طاقت کو استعمال کررہی ہے اور کس طرح ریکوڈک اور سیندک کے مالک دو وقت کی روٹی کے لیے روزانہ ایف سی کے ہاتھوں غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنتے ہے۔
اس وقت بلوچ اور ریاست کے درمیاں محض ظلم و تشدد کی دیوار قائم ہے اگر ریاست واقعی بلوچ قوم کے مسائل کے حل کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو معاشرتی مسائل سے لیکر جبر و تشدد کے ہر رشتے کو قانون و آئین کے مطابق ڈیل کریں وگرنہ ہم یہ سمجھنے میں مکمل حق بجانب ہے کہ بلوچ اور ریاست کا رشتہ صرف حاکم و محکوم کا ہے۔ بطور عوامی آرگنائزیشن ہم مطالبہ کرتے ہے ماشکیل دھرنے کے تمام جائز مطالبات فوراً تسلیم کیے جائے اور بارڈر میں بھتہ خور ایف سی، خفیہ ادارے سمیت تمام ملوث فورسز کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔