بلوچستان

اسمگلنگ کی حمایت نہیں کرتے، چمن دھرنا مظاہرین کے مطالبات تسلیم کیے جائیں، محمود اچکزئی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے سماجی رابطے ویب سایٹ پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ اقتدار میں کس نے آنا ہے؟ یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان کو بچانے کا واحد راستہ عوام کی رائے کا احترام ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے کئی اضلاع میں ہزاروں ٹن افیون کاشت ہورہی ہے۔ فی ٹیوب ویل 2 لاکھ روپے وصول کر کے کہا جاتا ہے جو مرضی چاہے اگاو، یہ 2 لاکھ روپے کن لوگوں کا حصہ ہوتا ہے یہ نہیں بتانا چاہتا۔ان کا کہناتھا کہ اقتدار میں کس نے آنا ہے؟ یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ شہ رگ توڑ دی ہے،چمن میں دھرنا جاری ہے مگر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں‘آپ لوگوں کی بغاوت کی طرف لے جا رہے ہیں، تجارت فوری بحال اور طے شدہ معاوضہ جاری کیا جائے۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں پارلیمنٹ ہی طاقت کا سرچشمہ ہو۔ علامہ ناصر عباس نے کہا مخلص حکمران عوام کااعتماد حاصل کرتے ہیں‘ یہاں دشمن فائدے اٹھا رہے ہیں‘فاٹا کے عوام کیساتھ انضمام سے قبل وعدے کئے گئے مگر پورے نہیں ہوئے ،ہمیں تقسیم کیا جارہا ہے۔ ہمیں علاقائیت اور قومیت کے نام پر تقسیم جارہا ہے۔یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کا انضمام یقین دہانیوں کی بنیاد پر ہوا تھا، اس وقت چمن میں دھرنا بیٹھا ہے، ابھی ماحول یہ ہے کہ نا ان کے دھرنوں کے ساتھ کوئی بات کر رہا ہے اور افغانستان کے ساتھ جو تجارت کی بندش ہے اس نے قبائلی عوام کی معاشی شہ رگ توڑ دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت الزامات لگا رہی ہے کہ اسمگلنگ ہو رہی ہے، ہم کبھی بھی اسمگلنگ کی حمایت نہیں کرتے، ہم بہت افسوس سے کہتے ہیں کہ ابھی تک جتنے بھی دھرنے بیٹھے ہیں اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، کیا وہ ملک کے شہری نہیں ہیں؟ جب بیروزگاری بڑھے گی تو فائدہ کس کو ہوگا؟ اس سب سے ملک میں بد امنی بڑھے گی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ وفاقی حکومت شاید اس علاقے سے کوئی انتقام لے رہی ہے، میں اپیل کرتا ہوں کہ ان لوگوں پر رحم کریں، آپ جو کر رہے ہیں اس سے آپ لوگوں کو بغاوت کی طرف لے جارہے ہیں۔اسد قیصر نے بتایا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ دھرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں، دوسرا یہ کہ جتنے معاوضے کا آپ لوگوں نے اعلان کیا وہ جاری کیا جائے، افغانستان کے ساتھ تجارت کی بندش کو بھی کھولا جائے، اگر آپ سنجیدہ ہیں تو صوبائی حکومت کے ساتھ بات کریں، یہ سیاسی مسائل ہیں اور پارلیمانی کمیٹی بنائیں اور ان سے کہیں کہ وہ ان مسائل کو دیکھے لیکن وہ کمیٹی ہو جس کے پاس طاقت ہو، میں تنبیہ دیتا ہوں کہ اگر بجٹ میں فاٹا اور پاٹا پر کوئی ٹیکس لگایا گیا تو ایسی صورتحال بنے گی امن و امان کی جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوگی۔اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ اس علاقے کو حکومت نے دیا کیا ہے؟ آج بھی جس علاقے سے میں ہوں وہاں بجلی کی بندش سے متعلق بہت بڑا مظاہرہ ہو رہا ہے، جتنے مسائل ہیں اس کو پارلیمان میں لائیں اور اس کا حل نکالیں اور عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے ہم پارلیمنٹیرین کے طور پر کام کر رہے ہیں، جو بجٹ آرہا ہے اس میں ان علاقوں کے لیے پیکج دیں اور جو مختلف دھرنے بیٹھے ہیں ان سے بامعنی مذاکرات کریں، ہم اسمبلی میں بھی اس پر بات کریں گے۔اس موقع پر خیبر پختونخوا ہاو¿س اسلام آباد میں محمود خان اچکزئی ، اور علامہ راجہ ناصر عباس بھی موجود تھے۔ اسد قیصر نے کہا کہ بجٹ پیش ہونے سے پہلے ہم قبائلی اضلاع کے ایشو بتانا چاہتے ہیں۔قبائلی اضلاع کو یہ کہا گیا تھا کہ ان کو بجٹ میں تین فیصد دیا جائے گا۔ تعلیم کے شعبے میں بھی قبائلی اضلاع کے لئے بھی بجٹ مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن قبائل اضلاع کیساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے ۔ اس وقت چمن کا بارڈر بند ہے، افغانستان کیساتھ تجارت رک گئی ہے۔

متعلقہ خبریں