گوشت کے بجائے قربانی فنڈز بھیجے جاتے ہیں دنیا کے ممالک سے پاکستان کو قربانی کا گوشت یا زندہ جانور نہیں بھیجا جاتا بلکہ انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر قربانی کے لیے فنڈز دیے جاتے ہیں جن کی مدد سے اندرونِ ملک جانور خریدے جاتے ہیں اور وسیع پیمانے پر قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے . وی نیوز کی تحقیق کے مطابق غیر ملکی حکومتوں نے کبھی قربانی کی مد میں فنڈز نہیں بھیجے بلکہ ساری فنڈنگ افراد اور غیر منافع بخش تنظیموں کی جانب سے کی جاتی ہے . پاکستان میں یہ فنڈز ملکی اور بین الاقوامی غیر منافع بخش تنظیموں کو دیے جاتے ہیں جو ایک منظم و مربوط نظام کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں جانور قربان کرکہ غربا اور مساکین میں گوشت تقسیم کرتی ہیں . امسال بیشتر تنظیموں کا فوکس سیلاب زدہ علاقے ہیں تاہم ملک کے دیگر صوبوں اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی قربانی کی جاتی ہے . کن ممالک سے قربانی فنڈز آتے ہیں؟ انفرادی اور تنظیمی سطح پر پاکستان میں کام کرنے والی تنظیموں کو انگلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکا، ترکی، جرمنی، اٹلی، بلجیئم ، نیدرلینڈ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، عمان، اور قطرسمیت دنیا کے مختلف ممالک سے قربانی کے لیے رقوم موصول ہوئی ہیں . مغربی ممالک میں خود قربانی کرنے کا رواج کم ہے کیونکہ وہاں جانور خرید نا، اس کی دیکھ بھال کرنا، قربانی کرنا اور پھر گوشت تقسیم کرنا قدرے مشکل کام ہے . سخت قوانین اور قربانی کی سہولتوں کی عدم دستیابی اس مشکل میں مزید اضافہ کر دیتی ہے لہذا وہاں بسنے والے صاحبِ نصاب مسلمان غیر منافع بخش تنظیموں کے تعاون سے دنیا کے مسلم ممالک میں قربانی کا اہتمام کرتے ہیں . دوسری جانب غیر منافع بخش تنظیمیں پاکستان کو اس کی اسلامی حیثیت، کثیر آبادی، اور غربت کے تناسب کی وجہ سے فنڈز دیتی ہیں . مختلف تنظیموں کی جانب سے قربان کیے گئے جانور الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے نائب صدر ذکریا مجاہد نے وی نیوز کو بتایا کہ اس عید پر الخدمت نے 6000 بڑے اور 3000 چھوٹے جانوروں کی قربانی کا اہتمام کیا . جس سے سیلاب متاثرہ علاقوں سمیت ملک بھر میں 20 لاکھ سے زائد افراد مستفید ہوئے . اس قربانی میں نہ صرف غیر ملکی افراد اور تنظیموں کا حصہ ہے بلکہ سمندر پار پاکستانیوں اور اندرونِ ملک مخیر حضرات کا بھی تعاون شامل ہے . اسی طرح ہیلپ ان نیڈ کے قربانی پراجیکٹ کے سربراہ حامد خان کے مطابق ان کی تنظیم نے آسٹریلیا، انگلینڈ، ترکی، جرمنی، نیدرلینڈ اور دیگر ممالک سے آنے والے فنڈز سے کل 1500 جانوروں کی قربانی کی . ہیلپنگ ہینڈ کی جانب سے 525 بڑے اور 910 چھوٹے جانور قربان کیے گئے . تنظیم کے کنٹری ڈائریکٹر محمد سلیم منصوری کا کہنا تھا کہ اس قربانی کے لیے سارے فنڈز امریکہ سے موصول ہوئے تھے . ریڈ فاؤنڈیشن کے ترجمان عثمان بارانی نے بتا یا کہ کل 1200 جانوروں کی قربانی کی گئی جن کے لیے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکی تنظیموں نے فنڈز بھیجے تھے . مسلم ایڈ کےترجمان مرسلین مغل کے بقول ان کی تنظیم نےالگلینڈ سے موصول ہونے والے فنڈز سے کل 150 جانور قربان کیے . مسلم ہینڈز کے کنٹری ڈائریکٹر سید ضیاء النور نے کہا کہ ان کی تنظیم پہلے 1000 تک جانور قربان کرتی تھی مگر امسال فنڈز کی قلت کے باعث صرف 400 جانوروں کی قربانی کی گئی جن میں سے 30 جانور وں کے فنڈز فرانس، 39 کے انگلینڈ، اور 300 کے ترکی کی جانب سے عطیہ کیے گئے . یوں ان 6 تنظیمیں کی جانب سے کل ملا کر 13685 جانوروں کی قربانی کی گئی . کیا ایسی قربانیاں صرف پاکستان میں ہوتی ہیں؟ امیر ممالک کے باسیوں اور تنظیموں کی جانب سےصرف پاکستان میں ہی قربانی نہیں کی جاتی بلکہ دنیا کے دیگر مسلم ممالک میں بھی اسی طرز پر قربانیاں کی جاتی ہیں . مندرجہ بالا تنظیموں میں سے اکثر دنیا کے 58 ممالک میں ہر سال قربانی پراجیکٹ کرتی ہیں . ان میں سے الخدمت فاؤنڈیشن ، جس کا صدر دفتر بھی پاکستان میں واقع ہے، فلسطین، شام،روہنگیا ،اور افغانستان میں قربانی کا اہتمام کرتی ہے . بعینہ مسلم ایڈ اور مسلم ہینڈزافریقی مسلم ممالک، بنگلہ دیش، سری لنکا، میانمار، اور انڈیا میں بھی قربانی کرتی ہیں . پاکستان کو قربانی فنڈز ملنے بند ہو رہے ہیں مسلم ہینڈز کے کنٹری ڈائریکٹر سید ضیاء النور نےبتایا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے مسلمان باسیوں کی جانب سے قربانی کے لیے پاکستان رقوم بھیجنے کا سلسلہ کمزور پڑتا جا رہا ہے . اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جانوروں کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں ہیں . انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قربانی کے ایک حصے کی لاگت افریقہ میں پورے جانور کی لاگت جتنی ہے . یہی وجہ ہے کہ اب لوگ پاکستان میں فنڈز بھیجنے کی بجائے دیگر مسلم ممالک میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں . . .
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)قربانی عید الاضحیٰ کی روح ہے اور گوشت کی تقسیم ایک لازمی جزو جسے پاکستان میں آس پڑوس اور محلے میں بانٹنے کی روایت قدیم ہے . گلوبلائزیشن کے بعد دنیا بھی ایک محلہ تصور کی جاتی ہے جس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا دنیا کے دیگر ممالک بھی محلے داروں کی طرح بقر عید پر ایک دوسرے کو گوشت بھیجتے ہیں؟ اس سوال کی کھوج کے دوران کچھ دلچسپ حقائق وی نیوز کے ہاتھ لگے جو آنے والی سطروں میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں .
متعلقہ خبریں