ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کی نورا کشتی میں کراچی کے عوام کو کیا ملے گا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)کراچی مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے اور کروڑوں کی آبادی پر مشتمل اس شہر میں پینے کے صاف پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کا مسئلہ تو دائمی ہی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے اب ایک بار پھر کوٹہ سسٹم پر آواز اٹھائی گئی ہے۔ پارٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی نسل پرست حکومت نے کوٹہ سسٹم لگا کر تقسیم کی بنیاد ڈالی جس کے جواب میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنا سخت رد عمل دیا۔
معاملہ ہے کیا؟
خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ ایک سے 15 گریڈ کی نوکریاں مقامی لوگوں کو ملنی چاہییں اور 50 سالوں میں انصاف سے محرومی کی پوری تاریخ ہے لیکن ہم سندھ ہائیکورٹ کے 30 جون کے فیصلے پر شکر گزار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سے 15 اسکیل کی نوکریاں صرف مقامی لوگوں کو دینی چاہیے، اس فیصلے نے نوجوانوں اور قوم کو یقین دیا ہے، کوٹا سسٹم کا مقصد جاگیر دارانہ نظام کو بچانا تھا اگر اس وقت ایم کیو ایم ہوتی تو وہ عدالتوں میں کھڑی ہوجاتی، جعلی ڈومیسائل بنا کر شہری علاقوں کی نوکریوں پر قبضہ کیا گیا۔
وزیرِ بلدیات سندھ سعید غنی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے کوٹہ سسٹم پر بات کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو پر بات کی، ان کے اندر ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلزپارٹی کے خلاف نفرت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نفرت کا سبق ان کو بانی ایم کیو ایم نے پڑھایا، خالد مقبول صدیقی نے نفرت کی سیاست آگے بڑھانے کی کوشش کی، ان کو جب موقع ملتا ہے یہ ثابت کرتے ہیں ہم اسی لیڈر کے پیروکار ہیں۔
سعید غنی کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ کورنگی کنٹونمنٹ بورڈ کے کونسلر کے قتل کی مذمت کرتا ہوں، سوچا تھا نئی ایم کیو ایم وجود میں آئی ہے تو نفرتیں اور پرانی روش چھوڑ دی ہو گی، جب بھی صوبے میں بہتری آنا شروع ہوتی ہے ایم کیو ایم زہر اگلنے لگتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سکھر آئی بی اے سے اچھا ٹیسٹنگ ادارہ کوئی نہیں، سندھ ہائیکورٹ نے ججز کی بھرتی ٹیسٹ کے لیے سکھر آئی بی اے کو چنا، پی پی کی گزشتہ حکومت میں خالی پوسٹ کے لیے اشتہار دیا گیا، ایم کیو ایم نے حکومت جانے سے کچھ روز پہلے عدالت میں کیس کر دیا، ایم کیو ایم کے مطابق پی پی نوکریاں الیکشن میں ووٹ کے لیے دے رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ کوٹہ سسٹم لیاقت علی خان لائے تاکہ بنگالیوں کو نمائندگی مل سکے، اپنی گھٹیا سیاست چمکانے کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں زہر نہ گھولیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی بربادی ایم کیو ایم کے آنے کے بعد ہوئی، نیشنلائزیشن پی پی کے منشور کا حصہ تھی جس کے بعد ملک کی معیشت کو وسعت ملی ہے، نیشنلائزیشن نہ ہوتی تو ملک پر اب بھی 22 خاندانوں کا اثر ہوتا۔
کیا یہ نورا کشتی ہے؟
خالد مقبول صدیقی کے اس مؤقف پر شرجیل انعام میمن اور ناصر حسین شاہ نے بھی سخت رد عمل دیا اور معافی کا مطالبہ بھی کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کہیں حکومت خطرے میں تو نہیں؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے جن لوگوں سے رابطہ کیا انہوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ سب دونوں جماعتوں کی باہمی رضا مندی سے ہو رہا ہے، اگر واقعی ایسا ہوتا جو دکھ رہا ہے تو خالد مقبول صدیقی کی بلاول بھٹو زرداری سے آخری ملاقات جو چند روز قبل ہوئی اسے کیا نام دیا جائے؟
ذرائع کے مطابق خالد مقبول صدیقی اور بلاول بھٹو زرداری کی آخری ملاقات جو ایک ہفتہ قبل ہوئی ہے اس میں یہ طے پایا ہے کہ سیاسی پارٹنر شپ ایسی ہی چلتی رہے گی جبکہ عوام کو دکھانے کے لیے کوئی ایشو ایسا ہو جو کراچی کے عوام رخ موڑ سکے کیوں کہ آنے والے دنوں میں کراچی میں 3 بڑی جماعتیں احتجاج کرتے نظر آئیں گی جن میں پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم حقیقی شامل ہیں۔
یہ جماعتیں کراچی کے سنگین مسائل پر الگ الگ اپنا احتجاج ریکارڈ کریں گی جبکہ ہیٹ ویو میں شہری حکومت یا صوبائی حکومت کی کارکردگی ہو یا بجلی کے بحران پر قابو پانا ہو یا پھر گیس یا بجلی ہو ان سب میں ناکام نظر آرہی تو دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان نے بھی کوٹہ سسٹم پر اپنی سیاست کو چمکانے میں عافیت جانی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں ہے صوبے میں وہ اپوزیشن میں ہے، شہری حکومت ان کے پاس نہیں ہے وفاق میں حصو تو ہے لیکن نہ ہونے کے برابر تو اس صورت میں ایم کیو ایم کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ حکومت سے نکلے ورنہ ہاتھ سے وفاق بھی چلا جائے گا۔